مشکوٰۃ المصابیح - ممنوع چیزوں یعنی ترک ملاقات انقطاع تعلق اور عیب جوئی کا بیان - حدیث نمبر 4904
وعن أبي موسى قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم مثل الجليس الصالح والسوء كحامل المسك ونافخ الكير فحامل المسك إما أن يحذيك وإما أن تبتاع منه وإما أن تجد منه ريحا طيبة ونافخ الكير إما أن يحرق ثيابك وإما أن تجد منه ريحا خبيثة
نیک اور بد ہمنشین کی مثال
اور حضرت ابوموسی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا نیک اور بد ہم نشین کی مثال مشک رکھنے والے اور دھونکنی دھونکنے والے کی سی ہے مشک رکھنے والا یا تو تمہیں مشک مفت دیدے گا یا تم اس سے خرید لو گے اور یا اگر کسی بھی صورت میں اس کا مشک تمہارے ہاتھ نہیں لگتا تو کم از کم خوشبو تو ضرور تمہیں حاصل ہوجائے گی، اسی طرح نیک اور صالح ہم نشین سے کوئی فیض یا کوئی خاص نعمت نہ بھی ملے تو یہی کیا کم ہے کہ کچھ ساعتوں کے لئے اس کی صحبت میں سکون و اطمینان کے ساتھ بیٹھنا نصیب ہوجائے اور دھونکنی دھونکنے والا یا تو تمہارے کپڑوں کو جلا دے گا یا تمہیں اس سے دماغ پوش یعنی دھواں ملے گا، اسی طرح بدکار ہم نشین اول تو دین و دنیا دونوں کا نقصان پہنچاتا ہے وقت کو ضائع کرتا ہے اور حصول سعادت کی صلاحییت و استعداد کو بےکار کردیتا ہے اور اگر یہ نہ بھی ہو تو اس کی صحبت میں کم از کم اتنا تو ضرور ہوتا ہے کہ زندگی کے وہ قیمتی لمحات، دل و دماغ کی کبیدگی اور لاحاصل صحبت کی ناخوشگوار میں صرف ہوتے ہیں۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
اچھے لوگوں کی محبت و ہم نشینی اور برے لوگوں کی محبت و ہم نشینی کے درمیان جو فرق ہے اس کی مذکورہ بالا نشین مثال کے ذریعہ واضح کردیا گیا ہے اور جیسا کہ ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ اس ارشاد گرامی کی مراد اس بات کی تاکید و تنبیہ ہے کہ اچھے لوگوں سے محبت وتعلق پیدا کرو ان کی صحبت و ہم نشینی کو اختیار کرو اور برے لوگوں کی محبت و موافقت اور ان کی صحبت و ہم نشینی سے اجتناب کرو نیز اس میں اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اچھے لوگوں یعنی علماء و صلحاء کی صحبت و ہم نشینی دے دنیا و آخرت میں فائدہ حاصل کرنے کا سبب ہے اور برے لوگوں یعنی بدکار و فاسق کی صحبت و ہم نشینی دنیا و آخرت میں نقصان اٹھانے کا ذریعہ ہے۔
Top