مشکوٰۃ المصابیح - ممنوع چیزوں یعنی ترک ملاقات انقطاع تعلق اور عیب جوئی کا بیان - حدیث نمبر 4903
وعن أنس أن رجلا قال يا رسول الله متى الساعة ؟ قال ويلك وما أعددت لها ؟ قال ما أعددت لها إلا أني أحب الله ورسوله . قال أنت مع من أحببت . قال أنس فما رأيت المسلمين فرحوا بشيء بعد الإسلام فرحهم بها . متفق عليه
علماء اور اولیاء اللہ کے ساتھ محبت رکھنے والے آخرت میں ان ہی کے ساتھ ہوں گے۔
اور حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ سے ایک شخص نے یہ سوال کیا یا رسول اللہ قیامت کب آئے گی تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم پر افسوس ہے؟ کیا تم نے قیامت کے لئے کوئی تیاری کر رکھی ہے؟ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا آنحضرت ﷺ کو اس کا یہ سوال اچھا نہیں لگا اور آپ کو گمان ہوا کہ اس شخص نے اچھا اعتقاد رکھتے ہوئے از راہ خودی یہ سوال نہیں کیا ہے بلکہ قیامت کے آنے کو ایک دور دراز کی بات سمجھتے ہوئے لاپرواہی کے طور پر یہ سوال کیا ہے چناچہ آپ نے اس کو جواب بھی اسی انداز میں دیا کہ یہ کیا پوچھتے ہو کہ قیامت کب آئے گی، تم اپنا عقیدہ و عمل درست رکھو اور اچھے کام کرو، جب قیامت کے دن کو آنا ہوگا آجائے گا، لیکن جب اس شخص نے یہ عرض کیا کہ میں نے کوئی تیاری نہیں کی البتہ میرے پاس ایک دولت ضرور ہے وہ یہ کہ میں اللہ اور اللہ کے رسول سے محبت رکھتا ہوں تو آنحضرت ﷺ نے جانا کہ اس شخص کا مذکورہ سوال ایک مخلص کامل مومن کے اعتقاد کا مظہر ہے اور از راہ خوف ہے کسی لاپرواہی کا غمازہ نہیں ہے چناچہ آپ نے فرمایا تم دنیا و آخرت میں اسی کے ساتھ ہو، جس سے محبت رکھتے ہو حضرت انس ؓ کہتے ہیں میں نے مسلمانوں کو اسلام کے بعد کسی چیز سے اتنا زیادہ خوش نہیں دیکھا جتنا کہ وہ آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد سے خوش ہوئے۔ بخاری ومسلم۔

تشریح
اس شخص نے تیاری کے زمرہ میں صرف اللہ اور اللہ کے رسول کے ساتھ محبت کو ذکر کیا ہے اور اس کے علاوہ دوسری بدنی و قلبی اور مالی عبادتوں کا اس نے کوئی ذکر نہیں کیا جن سے اس کی زندگی یقینا خالی نہیں تھی، اس کی وجہ ایک تو اظہار عجز و انکساری اور اپنے مرتبہ عبودیت کا اخفاء تھا جو ایک مخلص مومن کی شان ہے دوسری وجہ یہ تھی کہ اللہ اور اللہ کے رسول کے ساتھ محبت ہی اصل چیز ہے اور تمام عبادتیں اسی محبت کی شاخیں اور اس کا لازمی اثر ہوتی ہیں، جس شخص کا قلب اللہ اور اللہ کے رسول کی محبت سے سرشار ہوجاتا ہے، عبادت وطاعت خود بخود اس کی عادت ثانیہ بن جاتی ہے علاوہ ازیں صرف محبت کو ذکر کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ محبت بذات خود سب سے اعلی مرتبہ ہے کیونکہ جو شخص اللہ سے محبت کرتا ہے اس سے اللہ تعالیٰ بھی محبت کرتا ہے جیسا کہ خود اللہ نے فرمایا ہے، یحبھم ویحبونہ اور ایک جگہ یوں فرمایا آیت (ان کنتم تحبون)۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ۔ ظاہر ہے کہ جس بندے کو محبت الٰہی کی دولت حاصل ہوجائے اس کی دنیاوی و اخروی فلاح نجات میں کیا شبہ ہوسکتا ہے۔ تم اسی کے ساتھ ہو جس سے تم محبت رکھتے ہو، کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص کسی ذات سے اس درجہ کا تعلق رکھتا ہے کہ اس کی محبت دوسری تمام چیزوں یہاں تک کہ اپنے مال اپنے اہل و عیال اور اپنی جان تک کی محبت پر غالب ہوجاتی ہے تو وہ اپنے محبوب کے ساتھ منسلک و ملحق و ہوجاتا ہے اور اس کا شمار محبوب کے اپنے لوگوں میں ہونے لگتا ہے اور محبت صادقہ یا عشق حقیقی کی علامت یہ ہے کہ وہی کام کرے جس کا محبوب حکم کرتے ہیں یا جو محبوب کی رضا و خوشنودی کا باعث ہو اور ہر اس کام سے اجتناب کرے جو محبوب کے حکم ومرضی کے خلاف ہو اور اس کے غیر کی مرضی و مراد کو پورا کرنے والا ہو، لہذا تم اگر اللہ کی محبت کا دعوی کرتے ہو تو اپنے عقیدہ و قول اور فعل عمل سے اس دعوے کو ثابت کرتے رہو، بایں طور کہ فرائض و واجبات کی بجا آوری کرو حق تعالیٰ جن امور سے راضی و خوش ہوجاتا ہے ان کو ہمیشہ اختیار کرو اور اس نے جن چیزوں سے منع کیا ہے ان کے قریب بھی مت جاؤ، اسی بات کو مشہور صوفی خاتون حضرت رابعہ بصری نے ان الفاظ میں نظم کیا ہے۔ ترجمہ۔ تم اللہ کی نافرمانی اختیار کئے ہوئے درآنحالیکہ تم اس کی محبت کا دم بھرتے ہو اپنی جان کی قسم یہ چیز قیاس میں بھی آسکتی اگر تمہاری محبت سچی ہوتی تو یقنا تم اس کی اطاعت کرتے کیونکہ محبت کرنے والا درحقیقت اپنے محبوب کا فرمانبردار ہوتا ہے۔ ا نحضرت ﷺ کا ارشاد سن کر مسلمانوں کا بہت زیادہ خوش ہونا اس بنا پر تھا کہ پہلے ان کے ذہن میں یہ بات تھی کہ جنت میں آنحضرت ﷺ کی معیت محج آنحضرت ﷺ کے ساتھ محبت اور آپ کی متابعت کی وجہ سے حاصل نہیں ہوگی بلکہ اس سعادت کو حاصل کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ عبادت میں مشغول رہن اور کثرت کے ساتھ ریاضت و مجاہدہ اختیار کرنا ضروری ہے چناچہ جب آنحضرت ﷺ نے مذکورہ بالا بات ارشاد فرمائی تو صحابہ کو بہت زیادہ خوشی ہوئی اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس کو علامہ عماد الدین ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے حضرت عائشہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک دن آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ایک صحابی حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ حقیقت میں آپ مجھ کو اپنی جان اپنے اہل خانہ اور اپنے بچوں سے بھی زیادہ عزیز محبوب ہیں میں اپنے گھر میں ہوتا ہوں تو آپ کے تصور میں کھویا رہتا ہوں جب آپ کی یاد بہت ستاتی ہے تو روئے انور کی زیارت کے بغیر چین نہیں ملتا تو آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتا ہوں اور آپ کی زیارت کر کے تسکین حاصل کرتا ہوں جب مجھے اپنی موت کا خیال آجاتا ہے اور اس دنیا سے آپ کے رخصت ہوجانے کا تصور کرتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ آپ جنت میں جائیں گے جنت کے سب سے اعلی درجہ میں انبیاء کے ساتھ ہوں گے اور اگر اللہ نے مجھے بھی جنت میں داخل کردیا تو مجھے ڈر لگتا ہے کہ میں آپ کی زیارت سے محروم رہوں گا، آنحضرت ﷺ نے ان صحابی کی یہ بات سنی لیکن کوئی جواب نہیں دیا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی، ا یت (وَمَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰ ى ِكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّ نَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَا ءِ وَالصّٰلِحِيْنَ وَحَسُنَ اُولٰ ى ِكَ رَفِيْقًا) 4۔ النساء 69)۔ جس نے ضروری احکام میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کی وہ جنت میں ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے اپنا انعام نازل کیا ہے یعنی انبیاء، صدیق، شہداء اور صالحین۔ رہی یہ بات کہ یہاں معیت سے کیا مراد ہے تو جاننا چاہیے کہ معیت سے مراد یہ نہیں کہ محبت کرنے والا اور محبوب دونوں کے درمیان ہونے والی ملاقات کی جو کیفیت ایک حدیث میں بیان کی گئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اعلی درجہ والے ان لوگوں کے پاس آئیں گے جو نیچے کے درجات میں ہوں گے اور پھر سب جنت کے باغات میں یکجا ہوں گے وہاں ایک دوسرے کی زیارت و ملاقات ہوگی اور درجہ عالیہ والے ان چیزوں کی ذکر کریں گے جو ان کو اللہ کی طرف سے بطور انعام حاصل ہوئی ہوں گی اور حق تعالیٰ انعامات و اکرامات پر اس کی حمد وثناء کریں گے پھر درجات سافلہ والے ان کی خاطر و تواضع کریں گے اور دوڑ دوڑ کر وہ چیزیں لائیں گے اور ان کو دیں گے جن کی وہ خواہش و طلب کریں، غرضیکہ اسی طرح وہ سب جنت کے باغات میں اس طرح کی تقریب سے لطف اندوز و مسرور ہوا کریں گے۔ واضح رہے کہ متابعت اور ضروری احکام کے مدارج مختلف ہوتے ہیں لہذا جس درجہ کے احکام ضروریہ میں اطاعت ہوگی اسی درجہ کی محبت بھی شمار ہوگی اور جس درجہ کی محبت یا جس درجہ کا حسن معاملہ ہوگا اسی درجہ کی یہ معیت و ملاقات بھی نصیب ہوگی۔
Top