مشکوٰۃ المصابیح - اللہ کے ساتھ اور اللہ کے لیے محبت کرنے کا بیان - حدیث نمبر 4884
وعن ابن مسعود قال قال رجل للنبي الله صلى الله عليه وسلم يا رسول الله كيف لي أن أعلم إذا أحسنت أو إذا أسأت ؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم إذا سمعت جيرانك يقولون قد أحسنت فقد أحسنت . وإذا سمعتهم يقولون قد أسأت فقد أسأت . رواه ابن ماجه
زبان خلق کو نقارہ اللہ سمجھو
اور حضرت ابن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ میں اپنی نیکو کاری یا بدکاری کو کس طرح معلوم کرسکتا ہوں یعنی اگر میں کوئی ایسا کام کروں جس کی شرعا اچھائی برائی معلوم نہ ہو تو ایسا کون سا ذریعہ ہے جس سے میں یہ معلوم کرسکوں کہ وہ کام کر کے میں نیکو کار بنوں گا یا بدکار؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا جب تم اپنے کسی کام کے بارے میں اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو کہ تم نے اچھا کام کیا ہے تو تمہارا کام اچھا ہے اور جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو کہ تم نے برا کام کیا ہے تو وہ تمہارا کام برا ہے یعنی تمہارا نیکوکار یا بدکار ہونا تمہارے پڑوسیوں کی گواہی کی ذریعہ معلوم ہوگا۔ (ابن ماجہ)

تشریح
جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو میں پڑوسیوں سے سارے پڑوسی مراد ہیں کیونکہ دو چار پڑوسی تو کسی غلط بات پر اتفاق کرسکتے ہیں لیکن عام طور پر سارے پڑوسیوں کا کسی ناروا فیصلے پر اور غلط بات پر متفق ہونا ممکن نہیں ہے لیکن حضرت شیخ عبدالحق دہلوی نے صراحت بھی کی ہے کہ حدیث کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ اس کے پڑوسی اہل حق، صاحب انصاف اور کسی کام کی اچھائی کو سمجھنے والے ہوں نیز وہ اس شخص سے نہ بہت زیادہ محبت تعلق رکھتے ہوں اور نہ بہت زیادہ دشمنی عداوت۔ یہ حدیث حضرت علی ؓ کے اس عارفانہ قول کی تائید کرتی ہے کہ السنۃ الخلق اقلام الحلق۔ یعنی مخلوق اللہ کی زبان حق تعالیٰ کا قلم ہے یا اس مفہوم کو ہمارے یہاں اس محاورہ، زبان خلق نقارہ خدا، کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔ برا کہے جسے عالم اسے برا سمجھو زبان خلق کو نقارہ اللہ سمجھو
Top