مشکوٰۃ المصابیح - اللہ کے ساتھ اور اللہ کے لیے محبت کرنے کا بیان - حدیث نمبر 4868
وعن أبي موسى قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن من إجلال الله إكرام ذي الشيبة المسلم وحامل القرآن غير الغالي فيه ولا الجافي عنه وإكرام السلطان المقسط . رواه أبو داود والبيهقي في شعب الإيمان
عالم حافظ اور عادل بادشاہ کی تعظیم ہے
اور حضرت ابوموسی اشعری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بوڑھے مسلمان کی عزت و توقیر کرنا، حامل قرآن یعنی حافظ و مفسر اور قرآن خوان کا احترام کرنا جبکہ وہ قرآن میں زیادتی کرنے والا ہو اور اس سے ہٹ جانے والا نہ ہو اور عادل بادشاہ کی تعظیم کرنی منجملہ خداوندی کی تعظیم کرنا ہے۔ (ابوداؤد، وبہیقی)

تشریح
اس حدیث کے ذریعہ مذکورہ بالا لوگوں کی تعظیم و توقیر کی اہمیت کو ظاہر کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کی شان میں بےادبی گستاخی کرنا اور اللہ کی تعظیم کے منافعی عمل کرنا ہے۔ حامل قرآن، یعنی حافظ، مفسر اور قرآن خواں، کی تعظیم کو اس امر کے ساتھ مشروط کیا گیا ہے کہ نہ تو غلو کرنے والا ہو اور نہ قرآن پڑھنے پڑھانے کو ترک کرنے والا ہو بلکہ اعتدال و میانہ روی کو اختیار کرنے والا جیسا کہ تمام عبادات میں آنحضرت ﷺ کی عادت شریفہ تھی چناچہ غول نہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ ریا کاروں کی طرح الفاظ کی تجوید اور حسن قرأت و صورت میں حد سے تجاوز نہ کیا جائے تلاوت اس قدر تیز نہ کی جائے کہ نہ تو الفاظ صحیح طور پر ادا ہوں اور نہ معنی سمجھ میں آئیں قرآن کے الفاظ و حروف میں تحریف کے ذریعہ خیانت کا ارتکاب نہ کیا جائے اور نہ غلط سلط تاویلات اور فاسد عقائد ونظریات کے ذریعہ اس کے مفہوم میں حذف و اضافہ اور ترمیم و تبدیلی کی جائے جیسا کہ اکثر اور فاسد ذہن و فکر کے حامل لوگوں کا شیوہ ہے اور نہ قرآن کے احکام و ہدایات کے بارے میں شکوک و شبہات اور وسوسے پیدا کئے جائیں اسی طرح قرآن سے نہ ہٹنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت کو ترک نہ کیا جائے تجوید و قرآن کے آداب و قواعدے اعرض نہ کیا جائے اور قرآن نے جو احکام و ہدایات اور مسائل بیان کئے ہیں ان پر عمل کرنے سے گریز نہ کرے۔ بعض حضرات نے غالی اس شخص کو قرار دیا ہے جو تعلیم و تدریس، تبلیغ و اصلاح، ذکر و فکر اور عبادات سے بالکل بےپرواہ ہو کر صرف تلاوت قرآن میں مشغول و مصروف رہے اسی طرح جافی اس شخص کو قرار دیا ہے جو تلاوت قرآن سے بالکل بےپرواہ اور دوسروں چیزوں میں مشغول رہے۔ عادل بادشاہ سے مراد وہ حاکم و سربراہ ہے جو حقیقی معنوں میں عدل کا پیکر ہو اور اپنے عوام پر ظلم و جور کو گوارا نہ کرتا ہو اور اس کا کوئی فیصلہ اور کوئی عمل عدل کے خلاف نہ ہو اور یہ اعلی درجہ ہے اس کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ اس کا عدل اس کے ظلم پر غالب ہو اس کے ظلم پر غالب ہو اس کے برخلاف اگر اس کا ظلم اس کے عدل پر غالب ہو تو اس کو عادل نہیں کہیں گے اور ایسے بادشاہ حاکم سے دور رہنا ہی افضل ہوگا واضح رہے کہ اس دور کے اکثر حاکموں اور سربراہوں کے احوال ان کی حکومتی کاروائیاں اور ان کے نظم حکومت کے دیکھتے ہوئے ان کو ادنیٰ درجہ کا عادل کہنا بھی بڑا مشکل ہے ان کی طرف سے اپنے عوام پر جو قوانین نافذ کئے جاتے ہیں اور جس طور پر ان کے کارندے عوام کے ساتھ سلوک کرتے ہیں ان کو اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو عدل و انصاف سرنگوں اور ظلم و زیادتی کا غلبہ نظر آئے گا یہی وجہ ہے کہ بعض علماء نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ جو شخص موجودہ زمانہ میں کسی بادشاہ حاکم کو عادل کہے گا وہ کفر کی حد میں داخل ہوجائے گا اگرچہ بادشاہ حاکم کو کسی نہ کسی طرح کے عدل سے بالکل خالی نہیں کہا جاسکتا دراصل اس قول کی بنیاد ایک لطیف نکتہ پر ہے اور وہ یہ کہ کسی شخص کا عدل کرنا اور کسی شخص کا عادل ہونا ان دونوں کے درمیان فرق ہے اگر یہ کہا جائے کہ زید عدل کرتا ہے تو اس کے کہنے کا مطلب یہ قطعا نہیں ہوگا کہ زید عادل ہے کیونکہ عدل کرنے کا اطلاق اس شخص پر بھی ہوتا ہے جو اگرچہ گاہے بگاہے عدل کرتا ہو جب کہ عادل کا اطلاق صرف اس شخص پر ہوتا ہے جو صفت عدل کے ساتھ دوامی طور پر موصوف ہو اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر اس طرح کہا جائے کہ زید نمازی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ زید نماز پابندی کے ساتھ پڑھتا ہے اور کبھی بھی اس کی کوئی نماز ترک یا قضا نہیں ہوئی جب کہ اگر یوں کہا جائے کہ زید نماز پڑھتا ہے تو اس کا مفہوم بالکل دوسرا ہے اور وہ یہ کہ زید بھی نماز پڑھتا ہے اگرچہ پابندی کے ساتھ نہیں بلکہ کبھی کبھی پڑھتا ہے لہذا لفظ عادل اپنے جس وسیع اور اہم مفہوم کو ادا کرتا ہے اس کی بنیاد پر اسلفظ کا اطلاق نہ تو اس دور کے بادشاہ و حاکم پر ہوتا ہے اور نہ اس دور کے کسی بھی بادشاہ و حاکم کو عادل کہنے کی اجازت ہے۔ مذکورہ بالا حدیث میں تین طرح کے لوگوں کی تو قیر و تظیم کرنے کا حکم ذکر ہے اور شرح السنہ میں حضرت طاؤس سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ یہ مسنون ہے کہ تم چار آدمیوں کی تعظیم و تکریم کرو ایک تو عالم کی دوسرے بوڑھے شخص کی تیسرے سلطان و بادشاہ کی اور چوتھے باپ کی۔ ملاعلی قاری نے نے اس قول کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ باپ کے حکم میں ماں بھی داخل ہے اور عالم سے مراد عالم با عمل ہے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں باپ کا ذکر نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اول تو باپ کا معاملہ بالکل ظاہر ہے اور ہر شخص جانتا ہے کہ باپ کی تعظیم کرنی چاہیے دوسرے یہ کہ مستحق تعظیم قرار دینے کی زیادہ ضرورت انہی لوگوں کے حق میں ہے جو اجنبی ہوں اور جن کا تعلق قرابتی نہ ہو کیونکہ قرابت کا تعلق بجائے خود ایک انسان کو دوسرے انسان کی تعظیم و توقیر کرنے پر مائل کرتا ہے لہذا اگر شخص کا باپ بوڑھا بھی ہو۔ حامل قرآن یعنی حافظ و عالم با عمل بھی ہو اور سلطان و حاکم بھی ہو اور اس کا سلطان و حاکم ہونا خواہ اپنی ظاہری منصب کے اعتبار سے ہو یا باطنی روحانی طور پر تو اس سورت میں اس شخص کو اپنے باپ کی بہت زیادہ تعظیم و توقیر کرنی چاہیے کیونکہ اس کی ذات میں وہ کئی خصوصیات جمع ہیں جو تعظیم و توقیر کو واجب کرتی ہیں۔ اس حدیث میں مذکورہ لوگوں کی تعظیم کو منجملہ تعظیم الٰہی قرار دیا گیا ہے جب کہ ایک روایت کے مطابق اس تعظیم و توقیر کو نبی ﷺ نے خود اپنی تعظیم و توقیر کے مترادف قرار دیا ہے چناچہ خطیب نے اپنی جامع میں حضرت انس ؓ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ان من اجلالی تو قیر الشیخ من امتی، یعنی اس بوڑھے شخص کی تو قیر و تعظیم کرنا جو میری امت میں سے ہو من جملہ میری تو قیر و تعظیم کرنا ہے۔
Top