مشکوٰۃ المصابیح - طب اور جھاڑ پھونک کا بیان - حدیث نمبر 1489
وَعَنْھَا قَالَتْ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا عَصَفَتِ الرِّےْحُ قَالَ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ خَےْرَھَا وَخَےْرَ مَا فِیْھَا وَ خَیْرَ مَااُرْسِلَتْ بِہٖ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ شَرِّھَا وَشَرِّ مَا فِےْھَا وَشَرِّ مَا اُرْسِلَتْ بِِہٖ وَاِذَا تَخَےَّلَتِ السَّمَآءُ تَغَےَّرَ لَوْنُہُ وَخَرَجَ وَدَخَلَ وَاَقْبَلَ وَاَدْبَرَ فَاِذَا مَطَرَتْ سُرِّیَ عَنْہُ فَعَرَفَتْ ذَالِکَ عَآئِشَۃُ فَسَاَلَتْہُ فَقَالَ لَعَلَّہُ ےَا عَائِشَۃُ کَمَا قَالَ قَوْمُ عَادٍ فَلَمَّا رَاَوْہُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِےَتِھِمْ قَالُوْا ھٰذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا وَفِیْ رِوَاےَۃٍ ےَقُوْلُ اِذَا رَاَی الْمَطَرَ رَحْمَۃً۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
تیز ہوا کے وقت رسول اللہ ﷺ کی دعا
اور حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ جب شدت کی ہوا چلتی تو رسول اللہ ﷺ یہ دعا فرماتے اے اللہ! میں مانگتا ہوں تجھ سے بھلائی جو اس (ہوا کی ذات میں ہے اور بھلائی اس چیز کی جو اس میں ہے (یعنی اس کے منافع) اور بھلائی اس چیز کی جس کے لئے یہ ہوا بھیجی گئی ہے (یعنی اس کی مدد) اور پناہ مانگتاہوں تیرے ذریعہ اس برائی سے اور اس چیز کی برائی سے جو اس میں ہے (یعنی یہ عذاب کا باعث نہ ہو) اور جب آسمان ابر آلود ہوتا تو رسول اللہ ﷺ (کے چہر مبارک) کا رنگ بدل جاتا چناچہ (اضطراب و گھبراہٹ کی وجہ سے ایک جگہ نہ رہتے بلکہ) کبھی گھر سے باہر نکلتے اور کبھی باہر سے اندر آتے اس طرح پھر آتے اور پھرجاتے۔ جب بارش شروع ہوجاتی تو آپ ﷺ کا خوف و اضطراب ختم ہوجاتا (ایک مرتبہ) حضرت عائشہ ؓ نے جب یہ (تغیر و اضطراب) محسوس کیا تو رسول اللہ ﷺ سے اس کا سبب پوچھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ عائشہ کیا! خبر یہ ابرو یسا ہی ہو جس کی نسبت قوم عاد نے کہا تھا کہ یہ ابر ہے جو ہم پر بر سے گا۔ چناچہ اس آیت میں قوم عاد کا حال بیان کیا گیا ہے کہ جب انہوں نے ابر کو اپنے نالوں اور وادیوں پر آتے ہوئے دیکھا کہ یہ ابر ہے جو ہم پر بر سے گا۔ اور ایک روایت میں بجائے (فاذا مطرت سری عنہ) یہ الفاظ ہیں کہ جب آپ ﷺ بارش کو دیکھتے تو یہ فرماتے کہ یہ بارش باعث رحمت ہو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
مذکورہ بالا آیت میں قوم عاد کی ہلاکت کی ابتداء کا ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب جب ابر کی شکل میں ان پر نمودار ہوا تو اسی خوش فہمی میں رہے کہ یہ ابر ہمارے اوپر بارش برسائے گا، مگر حق تعالیٰ نے ان کی اس خوش فہمی کو جلد ہی ہلاکت میں بدل دیا جس کا اظہار اسی آیت کے دوسرے الفاظ میں بل ھو ما استعجلتم الاّ یہ کے ذریعہ بایں طور کیا گیا ہے کہ (نہیں) بلکہ (یہ) وہ چیز ہے جس کے لئے تم رہ گئے کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا، گنہگار لوگوں کو ہم اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں۔ پس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب ابر دیکھتے تو پڑھتے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ جس طرح قوم عاد نے ابر دیکھ کر یہ سمجھا تھا کہ ہم پر بارش ہوگی اور پھر وہ ابر ان پر بارش تو کیا برساتا بلکہ ایسی تند و تیز آندھی آئی جس نے آن واحد میں پوری قوم کو ہلاکت کی وادی میں پھینک دیا اسی لئے ہمارے لئے بھی یہ ابر ہلاکت و بربادی کا باعث نہ ہو؟
Top