مشکوٰۃ المصابیح - کھانوں کے ابواب - حدیث نمبر 4143
عن أبي هريرة قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يؤذ جاره ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليقل خيرا أو ليصمت . وفي رواية : بدل الجار ومن كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليصل رحمه
مہمان کی خاطر کرنا کمال ایمان کی علامت ہے
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اپنے مہمان کی خاطر کرے، جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ بھلی بات کہے یا چپ رہے۔ (بخاری کی) ایک روایت میں (یعنی پڑوسی کا ذکر کرنے) کے بجائے یہ ہے کہ جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہئے کہ اپنے ناطے کو باقی رکھے، یعنی اپنے ناطے داروں اور عزیزوں کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کا معاملہ کرے۔ (بخاری، ومسلم)

تشریح
جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے الخ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایمان کا پایا جانا مذکورہ باتوں پر موقوف ہے اور یہ کہ مثلاً اگر کوئی شخص اپنے مہمان کی خاطر نہیں کرتا یا اپنے پڑوسی کو تکلیف پہنچاتا ہے تو وہ مؤمن نہیں سمجھا جائے گا بلکہ اصل مقصد ان چیزوں کی اہمیت کو بیان کرنا اور ان پر عمل کرنے کی زیادہ سے زیادہ تاکید کرنا ہے، یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے بیٹے کو اطاعت و فرماں برداری کی راہ پر لگانے کے لئے یوں کہے کہ اگر تو میرا بیٹا ہے تو اطاعت و فرماں برداری کر ظاہر ہے کہ وہ اطاعت و فرماں برداری نہ کرے تو اس سے ثابت نہیں ہوگا کہ وہ اس کا بیٹا نہیں ہے۔ یا یہ مراد ہے کہ جس شخص کا ایمان درجہ کمال کا ہوگا (یعنی جو مسلمان کامل الایمان ہوگا) اس کی شان یہی ہوگی کہ وہ ان باتوں پر عمل کرے گا گویا ان چیزوں کو اختیار کرنا کمال ایمان کی علامت ہے۔ اکرام ضیف یعنی مہمان کی خاطر کرنا شرعی طور پر یہ ہے کہ جب کوئی مہمان آئے تو اس کے ساتھ کشادہ پیشانی، خوش خلقی اور ہنس مکھ چہرے کے ساتھ پیش آئے، اس کے خوش گفتاری، نرم گوئی اور ملاطفت کے ساتھ بات چیت کرے اور اس کو تین دن تک اس طرح کھلائے پلائے کے پہلے دن تو اپنی حیثیت و استطاعت کے مطابق کچھ پر تکلف میزبانی کرے بشرطیکہ اس کی وجہ سے اپنے متعلقین و لواحقین کی حق تلفی نہ ہو اور پھر تین دن کے بعد ( بھی اگر مہمان ٹھہرا رہے تو) اس کو کھلانا پلانا صدقہ کے حکم میں ہوگا کہ میزبان چاہے تو کھلائے اولا چاہے کھلائے پلائے اور چاہے کھلانے پلانے سے انکار کر دے۔ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے یعنی یہ پڑوسی کا سب سے کم درجہ ہے کہ اس کو کوئی تکلیف نہ پہنچائی جائے، ورنہ تو جہاں تک حقوق ہمسائیگی کا تعلق ہے وہ بہت ہمہ گیری نوعیت کے ہیں چناچہ بخاری و مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ فلیکرم جارہ (تو اس کو چاہئے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ تکریم کا معاملہ کرے) اور بخاری و مسلم ہی کی ایک روایت میں یوں منقول ہے کہ فلیحسن الی جارہ یعنی اس کو چاہئے کہ اپنے پڑوسی کی اس چیز میں مدد کرے جس کا وہ اس سے حاجت مند ہے اور اس کی مصیبت کو دور کرے۔ اسی طرح امام غزالی نے اربعین میں یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے (صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے) فرمایا کہ۔ تم جانتے بھی ہو پڑوسی کا کیا حق ہے؟ اگر وہ (پڑوسی) تم سے مدد چاہے تو تم اس کی مدد کرو اور اگر وہ تم سے قرض مانگے تو تو اس کو قرض دو، اگر وہ اس کو کوئی خوشی حاصل ہو تو اس کو مبارک باد دو اور وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو اور اگر وہ تم سے قرض مانگے تو اس کو قرض دو، اگر وہ محتاج و مفلس ہو تو اس کو کچھ دو، اگر اس کو کوئی خوشی حاصل ہو تو اس کو مبارک باد دو، اگر اس کو کوئی مصیبت پہنچے تو اس کو تسلی دو، مثلاً اس کے ہاں کوئی موت ہوجائے تو اس کے گھر جا کر تعزیت کرو، اس کے مکان کے پاس اونچا مکان نہ بناؤ، کہ اس کی ہوا وغیرہ رک جائے، اگر تم پھل وغیرہ خریدو تو تحفہ کے طور پر اس کے یہاں بھی بھجوا دو اور یہ ممکن نہ ہو سکے تو پھر تم اس (پھل وغیرہ) کو گھر میں پوشیدہ طور پر لے آؤ اور اپنے بچوں کو بھی تاکید کردو کہ وہ اس (پھل وغیرہ کو لے کر گھر سے باہر نہ نکلیں تاکہ تمہارے پڑوسی کے بچے (تمہارے بچوں کو پھل وغیرہ کھاتا دیکھ کر اپنی محرومی کی بنا پر) رنج و افسوس نہ کریں اور تم اپنی ہانڈی (چولھے) کے دھوئیں سے اس کو تکلیف نہ پہنچاؤ اور یہ کہ اس ہانڈی میں سے کچھ اس کے ہاں بھی بھجواؤ۔ اور کیا تم جانتے ہو کہ پڑوسی کا حق کیا ہے؟ قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اپنے پڑوسی کا حق وہی شخص پہچانتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے۔ بھلی بات کہے یا چپ رہے کا مطلب یہ ہے کہ جب زبان سے کوئی بات نکالنے کا ارادہ کرے اور یہ معلوم ہو کہ وہ بات خیر و بھلائی کی ہے کہ جس پر ثواب ملتا ہے خواہ وہ واجب ہو یا مستحب، تب اس کو زبان سے نہ نکالے، حاصل یہ کہ بھلائی اس میں ہے کہ زبان کو حتی الامکان خاموش رکھا جائے، اگر بولنا ضروری ہی ہو تو زبان سے وہی بات نکالی جائے جو خیر و بھلائی کی حامل ہو، نہ صرف یہ کہ حرام و مکروہ باتوں میں زبان کو مشغول رکھنا ممنوع ہے بلکہ مباح باتوں سے بھی زبان کو بچانا دانشمندی کا تقاضا ہے کہ مبادا مباح باتیں ہی زبان کو حرام باتوں تک کھینچ کرلے جائیں۔ اپنے ناطے کو باقی رکھے میں اس طرف اشارہ ہے کہ صلہ رحمی ایمان کی علامت ہے کہ جس شخص نے ناتوں کو توڑ ڈالا وہ گویا اللہ اور دن پر ایمان رکھنے والا نہیں ہے کیونکہ ناتا توڑنے پر جس عذاب سے ڈرایا گیا ہے اس کی پرواہ نہ کرنا اپنے ایمان کی خود نفی کرنے کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔
Top