مشکوٰۃ المصابیح - کھانوں کے ابواب - حدیث نمبر 4109
وعن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه وسلم خرج من الخلاء فقدم إليه طعام فقالوا : ألا نأتيك بوضوء ؟ قال : إنما أمرت بالوضوء إذا قمت إلى الصلاة . رواه الترمذي وأبو داود والنسائي
کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ہاتھ منہ دھونا کھانے میں برکت کا ذریعہ ہے۔
اور حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ (ایک دن) نبی کریم ﷺ بیت الخلاء سے واپس آئے تو آپ ﷺ کے سامنے کھانا لایا گیا۔ بعض صحابہ نے عرض کیا کہ کیا ہم آپ کے سامنے وضو کا پانی لائیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ مجھے (حدث کے بعد) وضو کرنے کا حکم (بطریق وجوب) اس صورت میں دیا گیا ہے جب کہ میں نماز کے لئے کھڑا ہونے کا ارادہ کروں (ترمذی، ابوداؤد، نسائی) اور ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت ابوہریرہ ؓ سے نقل کیا ہے۔

تشریح
یہ آپ ﷺ نے اغلب و اکثر کے اعتبار سے فرمایا کہ بطریق وجوب وضو کرنے کا حکم صرف نماز کے لئے ہے ورنہ سجدہ تلاوت کرنے، قرآن مجید کو چھونے اور طواف کرنے کے لئے بھی وضو کرنا واجب ہے۔ اس موقع پر آنحضرت ﷺ نے گویا یہ سمجھا کہ صحابہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ کھانے سے پہلے وضو شرعی کرنا واجب ہے چناچہ آپ ﷺ نے ان کے اس اعتقاد کی نفی کو اچھی طرح واضح کرنے کے لئے اپنے ارشاد میں حصر کا اسلوب اختیار فرمایا اور یہ اس بات کے منفی نہیں ہے کہ کھانے سے پہلے وضو کرنا جائز بلکہ مستحب ہے۔ لہٰذا یہاں وضو سے مراد وہی وضو ہے جو نماز کے لئے کیا جاتا ہے نہ کہ کھانے کا وضو یعنی ہاتھ اور منہ دھونا حدیث کا سیاق بھی اسی پر دلالت کرتا ہے۔ تاہم اگر اس جملہ الا ناتیک بوضو (کیا ہم آپ کے لئے وضو کا پانی لائیں؟ ) میں وضو سے مراد لیا جائے تو یہ بھی ہوسکتا ہے اور چونکہ کھانے سے پہلے ہاتھوں کا دھونا سنن اور آداب میں سے ہے نہ کہ واجب، اس لئے آپ ﷺ نے اس موقع پر تعلیم جواز کے پیش نظر اس کو ترک کیا اور اس صورت میں حدیث کا حاصل یہ ہوگا کہ یہ وضو یعنی کھانے سے پہلے ہاتھوں کو دھونا کہ جس کے لئے تم مجھ سے درخواست کرتے ہو کوئی واجب اور مامور نہیں ہے اگر میں اس کو ترک کروں یعنی کھانے سے پہلے اپنے ہاتھ نہ دھوؤں تو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا ہاں یہاں ایک اور وضو ہے اور وہ نماز کا وضو ہے جو واجب ہے۔
Top