مشکوٰۃ المصابیح - کھانوں کے ابواب - حدیث نمبر 4098
وعن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : من أكل ثوما أو بصلا فليعتزلنا أو قال : فليعتزل مسجدنا أو ليقعد في بيته . وإن النبي صلى الله عليه وسلم أتي بقدر فيه خضرات من بقول فوجد لها ريحا فقال : قربوها إلى بعض أصحابه وقال : كل فإني أناجي من لا تناجي
لہسن، پیاز کھا کر مسجد ومجالس ذکر وغیرہ میں مت جاؤ
اور حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔ جو شخص لہسن یا (کچی) پیاز کھائے ہوئے ہو، تو اس کو چاہئے کہ وہ ہم سے الگ رہے یعنی ہماری مجالس میں نہ آئے یا یہ فرمایا کہ تو اس کو چاہئے کہ وہ (کہیں جانے کے بجائے) اپنے گھر میں بیٹھا رہے۔ اور (ایک دن کا واقعہ ہے کہ) نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک ہانڈی لائی گئی جس میں از قسم ترکاری سبزیاں تھیں (یعنی لہسن، پیاز اور گندنا وغیرہ) آپ ﷺ کو اس میں بو محسوس ہوئی تو اپنے صحابہ میں سے ایک شخص کی طرف اشارہ کر کے (کسی خادم سے) فرمایا کہ اس کو اس (فلاں شخص) کے پاس لے جاؤ اور پھر ( اس شخص کو) مخاطب کر کے فرمایا کہ اس کو تم کھاؤ میں نہیں کھاؤں گا کیونکہ میں جس ہستی کے ساتھ سرگوشیاں کرتا ہوں اس کے ساتھ تم سرگوشی نہیں کرتے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
ہماری مسجد میں مفرد لفظ یعنی مسجد سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم صرف مسجد نبوی ﷺ کے لئے ہے اور صیغہ متکلم میں مع الغیر کا استعمال (یعنی میری مسجد کہنے کے بجائے ہماری مسجد کہنا) مسجد نبوی ﷺ کی تعظیم و اکرام کے پیش نظر ہے لیکن چونکہ اس حکم کی علت اور اس کا سبب میں تمام ہی مساجد بلکہ مجالس خیر جیسے مجلس ذکر وغیرہ، مجلس درس و تدریس اور اولیاء اللہ و علماء دین کی مجالس بھی شامل ہیں اس لئے جو حکم مسجد نبوی ﷺ کا ہے کہ لہسن وغیرہ کھا کر اس میں نہ جایا جائے یہی حکم دیگر مساجد و مجالس خیر کا بھی ہوگا اور اگر اس احتمال کو بھی مد نظر رکھا جائے کہ اس ارشاد گرامی میں مفرد لفظ مسجد سے مراد جنس ہے ( کہ آپ ﷺ نے لفظ مسجد بول کر تمام مساجد مراد لی ہیں) تو پھر اس تاویل کی بھی ضرورت نہیں ہوگی، علاوہ ازیں بعض روایت میں مساجدنا یعنی ہماری مساجد کا لفظ منقول ہے، اس صورت میں تو تمام مساجد کے لئے یہ حکم بالکل صریح ہوگا۔ او لیقعد فی بیتہ میں حرف او (یعنی یا) اگر راوی کے شک کے اظہار کے لئے ہے تو مراد یہ ہوگئی کہ آنحضرت ﷺ نے یا تو فلیعتزلنا تو اس کو چاہئے کہ وہ ہم سے الگ رہے) فرمایا تھا یا یہ فرمایا تھا کہ فلیعتزل مسجدنا (تو اس کو چاہئے کہ ہماری مسجد سے دور رہے) اور یا یہ فرمایا تھا کہ من اکل ثوما او بصلا فلیقعد فی بیتہ یعنی جو شخص لہسن یا پیاز کھائے ہوئے ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنے گھر میں بیٹھا رہے، کسی دوسرے کے پاس نہ جائے خواہ مسجد میں خواہ مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ۔ لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ او لیقعد فی بیتہ میں حرف اور راوی کے شک کے اظہار کے لئے نہ ہو، بلکہ تنویع و تقسیم کے لئے ہو اور اس کا تعلق ماقبل کے فقرہ یعنی فلیعتزل مسجدنا سے ہو اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ لہسن پیاز کھا کر مسجد میں آنا مکروہ ہے کہ وہاں ملائکہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ موجود رہتے ہیں اور ان چیزوں کو کھا کر عام لوگوں کے ساتھ اختلاط و مجالست مباح ہے اور یا اس سے بھی پرہیز کرنا چاہئے کہ اپنے گھر میں بیٹھا رہے اور مطلق اختلاط و مجالست سے باز رہے کیونکہ یہ زیادہ بہتر ہے۔ اس ہستی سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اور ملائکہ ہیں مطلب یہ تھا کہ یہ فرشتے میرے پاس آتے رہتے ہیں اور میں ان سے بات چیت کرتا ہوں جب کہ تمہارے ساتھ یہ چیز نہیں ہے اس لئے جو چیز ( یعنی لہسن پیاز وغیرہ کھانا) میرے لئے جائز نہیں وہ تمہارے لئے جائز ہے اس ارشاد گرامی میں گویا اس طرف اشارہ ہے کہ ہے کہ انسان کو چاہئے کہ اپنے ہم نشین و مصاحب کی طبیعت و عادات اور اس کے حل کی رعایت ملحوظ رکھے اور اس کی جائز خوشی ومرضی کو پورا کرے۔
Top