مشکوٰۃ المصابیح - کھانوں کے ابواب - حدیث نمبر 4089
وعن ابن عمر قال : نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يقرن الرجل بين التمرتين حتى يستأذن أصحابه
کئی آدمی ہوں تو دو کھجوریں ساتھ ساتھ نہ کھاؤ
اور حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے اس سے منع فرمایا کہ کوئی شخص دو کھجوروں کو جمع نہ کرے، یعنی ایک ساتھ دو دو کھجوریں کھائے الاّ یہ کہ وہ اپنے ساتھیوں سے اجازت لے لے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
سیوطی کہتے ہیں کہ اس ممانعت کا تعلق اس وقت سے تھا، جب کہ مسلمان فقر و افلاس اور تنگی معاش میں مبتلا تھے، لیکن جب انہیں اللہ نے معاش میں وسعت و فراخی اور خوشحالی عطا فرمائی تو آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد گرامی کے ذریعہ ممانعت منسوخ ہوگئی کہ۔ میں تمہیں کھجوروں کو جمع کرنے سے (یعنی ایک سے زائد کھجوروں کو ایک ساتھ کھانے سے) منع کرتا تھا، مگر اب جب کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں رزق کی وسعت و فراخی عطا فرمائی ہے تو جمع کرو، یعنی اگر تم اب ایک سے زائد کھجوریں ایک ساتھ کھاؤ تو یہ حرام یا مکروہ نہیں ہوگا۔ لیکن اس سلسلے میں زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اگر چند لوگ کسی بھی کھانے کی چیز اپنی غذائی ضرورت میں صرف کرنے کا مشترکہ طور پر یکساں حق رکھتے ہوں اور ان کی طرف سے اس چیز کو خرچ سے مقرر مقدار سے زیادہ کھانے پر پابندی) نہ ہو تو اس صورت میں بھی مروت و ادب کا تقاضا بہرحال یہی ہوگا کہ ایسا نہ کیا جائے (یعنی دوسرے ساتھیوں سے زیادہ کھانے مقررہ مقدار سے تجاوز کرنے کی کوشش نہ کی جائے کہ یہ کھانے کے آداب کے بھی منافی ہے اور مروت کے بھی خلاف ہے ہاں اگر تمام ساتھی ایسا کرنے کی صریح اجازت دے دیں یا کوئی ایسی چیز ہو جو ان کی طرف سے اجازت پر دلالت کرے تو کوئی مضائقہ نہیں، لہٰذا سابقہ ممانعت کا تعلق دونوں صورتوں (یعنی حالت فقر و افلاس اور شرکت) سے ہوگا اور اباحت و استثناء کا تعلق شرکت کے علاوہ دوسری صورت سے ہوگا۔
Top