مشکوٰۃ المصابیح - کھانوں کے ابواب - حدیث نمبر 4075
وعن سهل بن سعد قال : ما رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم النقي من حين ابتعثه الله حتى قبضه الله وقال : ما رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم منخلا من حين ابتعثه الله حتى قبضه قيل : كيف كنتم تأكلون الشعير غير منخول ؟ قال : كنا نطحنه وننفخه فيطير ما طار وما بقي ثريناه فأكلناه . رواه البخاري
آنحضرت ﷺ نے میدہ کی تیار کی ہوئی کوئی چیز نہیں کھائی
اور حضرت سہل بن سعد ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے جب رسول بنایا آپ ﷺ نے اس وقت سے کبھی میدہ کو نہیں دیکھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی روح قبض کی، نیز حضرت سہل ؓ نے کہا کہ رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے جب سے رسول بنایا آپ ﷺ نے اس وقت سے کبھی چھلنی کو نہیں دیکھا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح قبض کی (یعنی آنحضرت ﷺ مرتبہ رسالت پر فائز ہونے کے وقت اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک میدہ کی تیار کی ہوئی کوئی چیز یا چھلنی کے چھنے ہوئے آٹے کی روٹی کیا کھاتے کہ کبھی آپ ﷺ نے ان چیزوں کی صورت بھی نہیں دیکھی) حضرت سہیل سے پوچھا گیا پھر آپ لوگ جو (کے بغیر چھنے آٹے کی روٹی) کس طرح کھاتے تھے؟ حضرت سہیل ؓ نے کہا کہ ہم جو کو پیسنے کے بعد اس میں پھونک مارتے، چناچہ اس میں سے جو چیز اڑنے والی ہوتی (یعنی بھوسی) وہ اڑ جاتی اور جو چیز باقی رہتی (یعنی آٹا) اس کو ہم پانی میں گوندھ لیتے، (اور پھر اس کی روٹی پکا کر) کھالیتے۔ ( بخاری)

تشریح
اللہ تعالیٰ نے جب سے رسول بنایا آپ ﷺ اس وقت سے۔۔۔۔۔ الخ۔ عسقلانی کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ حضرت سہل ؓ نے ان الفاظ کے ذریعہ اس زمانہ کو ذکر کرنے سے احتراز کیا ہے، جو مرتبہ رسالت پر فائز ہونے سے پہلے گزرا تھا اور اس احتراز کا سبب یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جو دو مرتبہ ملک شام کا تجارتی سفر اختیار فرمایا تھا وہ بعثت رسالت کے قبل کے زمانہ ہی کا واقعہ ہے اور اس سفر کے دوران بحیرہ راہب نے آپ ﷺ کی میزبانی کا شرف حاصل کیا اور آپ ﷺ نے اس کے یہاں دعوت کھائی اور چونکہ وہاں کے لوگ خوش حال و مالدار تھے اس لئے بظاہر یہ امکان ہے کہ آپ ﷺ نے ان کے یہاں چیزیں ضرور دیکھی ہوں گی، لیکن آپ ﷺ نے بعثت رسالت کے بعد سے اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک جو زمانہ گذارا وہ تنگی معاش اور اقتصادی زبوں حالی کے لئے مشہور و معروف ہے ظاہر ہے کہ اس میں ایسی چیزوں کا کیا ذکر تھا۔ یہ حدیث دراصل آنحضرت ﷺ کی سادہ طبیعت اور بےتکلف زندگی کی واضح غماز ہے کہ آپ ﷺ کو اپنے کھانے پینے کا اتنا اہتمام بھی عزیز نہیں تھا، جتنا مالی طور پر ایک معمولی حیثیت کے انسان کے یہاں بھی ہوتا ہے اور یہی وہ بنیادی سبق ہے جو ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کھانے پینے کی چیزوں کی طرف متوجہ رہنا محض مقصد آشنا، بیوقوف اور غافل لوگوں کا شیوہ زندگی ہے۔
Top