آنحضرت ﷺ صبح ہونے سے پہلے دشمن آبادی پر حملے نہیں کرتے تھے
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ ہمارے ساتھ کسی (دشمن) قوم سے جہاد کرتے (یعنی جب جہاد کے موقع پر کسی ایسی دشمن آبادی پر حملہ آور ہونے کا ارادہ فرماتے جس کے حالات کا علم نہیں ہوتا اور ہم لوگ آپ ﷺ کے ہمراہ شریک جہاد ہوتے) تو صبح ہونے سے پہلے ہمارے ساتھ ان پر حملہ آور نہیں ہوتے، پھر صبح ہوجاتی تو ان (دشمنوں کی آبادی اور ان کے ٹھکانوں) پر نظر ڈالتے (تاکہ مشاہدہ یا قرائن سے یہ معلوم ہوجائے کہ یہ کون لوگ ہیں) اگر (ان کی طرف سے) اذان کی آواز سنتے تو ان سے (جنگ کرنے سے) باز رہتے اور اگر اذان کی آواز نہیں سنتے (اور اس پر قرینہ سے یہ ثابت ہوجاتا کہ (ان لوگوں میں مسلمان نہیں ہیں) تو ان پر حملہ کردیتے۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ چناچہ جب ہم (آنحضرت ﷺ کے ہمراہ جہاد کے لئے) خیبر روانہ ہوئے تو ان کی سرحدوں پر رات کے وقت پہنچے، جب صبح ہوگئی اور (ان کی طرف سے) اذان سنائی نہ دی تو آنحضرت ﷺ سواری پر سوار ہوئے اور میں ابوطلحہ کی سواری پر ان کے پیچھے بیٹھا اور (ہماری سواری آنحضرت ﷺ کی سواری کے اتنے قریب تھی کہ) میرے پاؤں آنحضرت ﷺ کے قدم مبارک سے لگتے تھے، حضرت انس کہتے کہ جب صبح ہونے پر) خبیر والے (ہماری آمد سے بیخبر اپنے کھیتوں میں جانے کے لئے) اپنے پھاوڑے تھیلے (یعنی کھیتی باڑی کا سامان) لئے ہوئے (اپنے گھروں سے نکلے اور ہماری طرف آئے اور انہوں نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا تو (چیخ چیخ کر) کہنے لگے، محمد ﷺ آگئے، اللہ کی قسم محمد ﷺ اور ان کے لشکر آگئے، یہ کہتے ہوئے وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور قلعہ میں پناہ گزیں ہوگئے، جب رسول کریم ﷺ نے ان کو اس طرح بھاگتے ہوئے دیکھا تو (گویا اس کو ان کی شکست سے تعبیر کرتے ہوئے اور از راہ تفاول) فرمایا اللہ بہت بڑا ہے، اللہ بہت بڑا ہے، خیبر برباد ہوگیا، اس میں کوئی شک نہیں، ہم (مسلمانوں کی جماعت یا انبیاء) جب کسی قوم کے میدان میں (جنگ کے لئے) اترتے ہیں تو اس ڈرائی گئی قوم کی صبح بڑی خراب ہوجاتی ہے۔ ( بخاری ومسلم)
تشریح
اس حدیث میں آنحضرت ﷺ کا یہ جنگی معمول بیان کیا گیا ہے کہ آپ ﷺ جب دشمنوں کی آبادی پر حملہ کرنے کا ارادہ کرتے تو طلوع فجر کے بعد اس آبادی کے بارے میں غور وتامل فرماتے اور آبادی والوں کی حرکات و سکنات اور ان کے افعال کے ذریعہ ان کے عقائد کا پتہ چلاتے کہ یہ کون لوگ ہیں، اگرچہ آپ ﷺ کو یہ معلوم ہوتا کہ یہ کفار کی آبادی ہے لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ محض اس احتمال کے پیش نظر یہ تامل فرماتے کہ شاید اس آبادی میں مسلمان بھی ہوں اگر آپ ﷺ کو اس آبادی کی طرف سے (فجر کی ) اذان سنائی دیتی تو اس کو اس بات کی علامت اور قرینہ سمجھ کر کہ یا تو یہ آبادی مسلمانوں ہی کی ہے یا اس آبادی میں مسلمان بھی ہیں آپ ﷺ حملہ آور ہونے کا ارادہ موقوف فرما دیتے اور اس آبادی کو جنگی شعلوں کے حوالے نہ کرتے، ہاں اگر اذان نہ سنائی دیتی تو پھر آپ ﷺ اس پر حملہ کردیتے اور اس کو جنگی میدان میں تبدیل کردیتے، کیونکہ اس زمانے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ مسلمان اذان ترک کرسکتے ہیں۔ اس لئے اس آبادی کی طرف سے اذان کی آواز نہ آنا اس بات کی واضح دلیل ہوتی کہ یہ آبادی کی طرف سے اذان کی آواز نہ آنا اس بات کی واضح دلیل ہوتی کہ یہ آبادی اللہ کے نام لیواؤں سے بالکل خالی ہے اور یہاں صرف کفر کا ٹھکانا ہے خطابی کہتے ہیں کہ یہ اس بات کی مستحکم دلیل ہے کہ اذان اسلام کے شعار میں سے ہے اور اس کو ترک کرنا قطعًا جائز نہیں ہے بلکہ اگر کسی آبادی وشہر کے لوگ اذان ترک کرنے پر اتفاق کر کے بیٹھ جائیں اور اذان دینا چھوڑ دیں تو اس صورت میں امام وقت (اسلامی مملکت کے سربراہ) پر واجب ہوگا کہ ان سے جنگ و قتال کرے اور ان کو اس عام گمراہی سے بچائے، چناچہ حنفی فقہاء نے بھی یہی لکھا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہم جب کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں الخ یہ جملہ مستانفہ ہے، جس کا مقصد ماقبل کی بات خیبر کی بربادی کی وضاحت کرنا اور اس کی وجہ بیان کرنا ہے۔ ڈرائی گئی قوم سے مراد کفار ہیں۔ اس جملہ سے آنحضرت ﷺ کا مطلب یہ تھا کہ ان پر قتل و غارت گری کی صورت میں اللہ کی طرف سے نازل ہونے والے عذاب کی وجہ سے ان کی صبح بڑی بھیانک ہوگئی ہے۔ نیز آپ ﷺ نے یہ بات قرآن کریم کی اس آیت کریمہ سے پیدا کی کہ (فَاِذَا نَزَلَ بِسَاحَتِهِمْ فَسَا ءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِيْنَ )۔ (37۔ الصافات 77) کیا یہ (کفار) ہمارے عذاب کے لئے جلدی کر رہے ہیں؟ پس جب ان کے میدان میں ہمارا عذاب اترے گا تو ان کی صبح بڑی خراب ہوگی جن کو ڈارایا گیا۔ نووی کہتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دشمن کے مقابلہ پر پہنچنے کے وقت (یعنی میدان جنگ میں) نعرہ تکبیر (اللہ اکبر) بلند کرنا مستحب ہے اور ایسے موقع کے مثل حالات کے امور محققہ میں قرآن کریم کے ذریعہ استشہاد جائز ہے چناچہ اسی کے مثل وہ صورت تھی جب کہ آنحضرت ﷺ نے فتح مکہ کے وقت کہا تھا (جَا ءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ )۔ 17۔ الاسراء 81) حق آیا اور باطل گیا گزرا ہوا۔ نیز علماء نے کہا ہے کہ قرآن کریم سے ایسا استشہاد جو محاورات میں بطریق ضرب المثل ہو یا لغو وبے فائدہ گفتگو و کلام کے دوران ہو، مکروہ ہے۔ بلکہ ملا علی قاری کہتے ہیں کہ ہمارے بعض علماء نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ کسی شخص کا اپنے مفہوم و ادائیگی کے لئے اپنے الفاظ، استعمال کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کا کلام یعنی قرآن کریم کی کوئی آیت یا کسی آیت کا ٹکڑا استعمال کرنا کفر ہے جیسے کوئی شخص اپنے مخاطب کو جس کا نام یحییٰ ہو، کوئی کتاب دیتے وقت یوں خطاب کرے۔ یا یحییٰ خذالکتباب بقوۃ (یہ دراصل ایک آیت کا ٹکڑا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے یحییٰ! اس کتاب کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو) یا کوئی شخص اپنے مخاطب کو مثلاً کھانا کھانے کے لئے یا آگے بڑھنے کے لے کہنا چاہتا ہے مگر اپنے الفاظ کھاؤ یا آگے بڑھو کی بجائے بسم اللہ کہتا ہے اور اسی طرح کی کسی بھی صورت میں قرآن کریم کے الفاظ کو استعمال کرنا۔ نیز ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا (جآء الحق وزھق الباطل) فرمانا کہ استشہاد کے طور پر نہیں تھا بلکہ دراصل امتثال امر (اطاعت حکم) کے طور پر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو حکم دیا تھا۔ (قل جآء الحق وزھق الباطل) (الاسراء ١٧ ٨١) یعنی (اے محمد ﷺ کہہ دیجئے کہ (دین) حق (غالب ہونے کو) آیا اور باطل گیا گزرا ہوا۔ اسی طرح آپ ﷺ کا (رب زدنی علماً ) کہنا اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے مطابق تھا کہ (وقل رب زدنی علماً )۔ (طہ ٢٠ ١١٤) یعنی (اے محمد ﷺ یوں دعا کیجئے کہ اے میرے رب! مجھے زیادہ سے زیادہ علم عطا فرما۔ غرضیکہ اس طرح کے جتنے منقولات آپ ﷺ سے ثابت ہیں وہ سب در اصل حکم الہٰی کی اطاعت وبجاآوری ہے اور یہ مستحب ہے۔