مشکوٰۃ المصابیح - کفاروں کا بیان - حدیث نمبر 3846
وعن سليمان بن بريدة عن أبيه قال : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا أمر أميرا على جيش أو سرية أوصاه في خاصته بتقوى الله ومن معه من المسلمين خيرا ثم قال : اغزوا بسم الله قاتلوا من كفر بالله اغزوا فلا تغلوا ولا تغدروا ولا تمثلوا ولا تقتلوا وليدا وإذا لقيت عدوك من المشركين فادعهم إلى ثلاث خصال أو خلال فأيتهن ما أجابوك فاقبل منهم وكف عنهم ثم ادعهم إلى الإسلام فإن أجابوك فاقبل منهم وكف عنهم ثم ادعهم إلى التحول من دارهم إلى دار المهاجرين وأخبرهم أنهم إن فعلوا ذلك فلهم ما للمهاجرين وعليهم ما على المهاجرين فإن أبوا أن يتحولوا منها فأخبرهم أنهم يكونون كأعراب المسلمين يجري عليهم حكم الله الذي يجري عليهم حكم الله الذي يجري على المؤمنين ولا يكون لهم في الغنيمة والفيء شيء إلا أن يجاهدوا مع المسلمين فإن هم أبوا فعلهم الجزية فإن هم أجابوك فاقبل منهم وكف عنهم فإن هم أبوا فاستعن بالله وقاتلهم وإذا حاصرت أهل حصن فأرادوك أن تجعل لهم ذمة الله وذمة نبيه فلا تجعل لهم ذمة الله ولا ذمة نبيه ولكن اجعل لهم ذمتك وذمة أصحابك فإنكم أن تخفروا ذممكم وذمم أصحابكم أهون من أن تخفروا ذمة الله وذمة رسوله وإن حاصرت أهل حصن فأرادوك أن تنزلهم على حكم الله فلا تنزلهم على حكم الله ولكن أنزلهم على حكمك فإنك لا تدري : أتصيب حكم الله فيهم أم لا ؟ . رواه مسلم
جہاد کرنے والوں کے بارے میں چند ہدایات
اور حضرت سلیمان بن بریدہ اپنے اپنے والد (حضرت بریدہ) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم ﷺ جب کسی شخص کو کسی چھوٹے یا بڑے لشکر کا امیر مقرر فرماتے تو خاص طور پر اس کی ذات سے متعلق تو اس کو اللہ سے ڈرتے رہنے کی اور اس کے ساتھ (جہاد میں) جانے والے مسلمانوں کے متعلق اس کو نیکی و بھلائی کرنے کی نصیحت فرماتے (کہ مجاہدین کا جو لشکر تمہاری کمان میں جا رہا ہے ہمیشہ ان کے ساتھ خیر و بھلائی کا معاملہ کرنا اور ان کے حق میں حسن سلوک و احسان اور نرمی وملاطفت کا رویہ اختیار کرنا) اور اس کے بعد یہ فرماتے کہ جاؤ اللہ کا نام لے کر اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے اور ان کے دین کا جھنڈا سربلند کرنے کی غرض سے اسلام دشمن طاقتوں سے جنگ کرو اس شخص کے خلاف جہاد کرو جس نے اللہ کے ساتھ کفر کیا ہے جہاد کرو، غنیمت کے مال میں خیانت نہ کرنا، عہد شکنی نہ کرنا مثلہ نہ کرنا یعنی کسی کے اعضاء جسم جیسے ناک کان وغیرہ نہ کاٹنا اور بچوں کو قتل نہ کرنا اور (اے امیر لشکر) جب تم اپنے مشرک دشمنوں کے سامنے پہنچو تو پہلے ان کو تین چیزوں میں سے کسی ایک کو اختیار کرلینے کی دعوت دو یا حدیث کے راوی اپنے شک کا اظہار کرتے ہیں کہ آپ نے (ثلث خصال) کے بجائے (ثلث خلال) فرمایا (خصال اور خلال دونوں کے ایک ہی معنی ہیں) ان تین چیزوں میں سے وہ مشرک جس چیز کو تم سے اختیار کریں اور اپنے لئے پسند کریں تم اس کو منظور کرلو اور ان کو اس سے زیادہ کسی اور چیز پر مجبور کرنے سے باز رہو پھر یعنی ان تین چیزوں میں سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ ان کو اسلام کی دعوت دو اگر وہ اس دعوت کو قبول کریں تو تم بھی اس کو منظور کرلو اور ان سے جنگ کرنے سے باز رہو، (پھر وہ اسلام قبول کریں تو) ان کو اپنے ملک یعنی (دار الحرب سے) مہاجرین کے ملک (یعنی دار السلام) کو منتقل ہوجانے یعنی ہجرت کرنے کی) دعوت دو اور ان کو یہ بتادو کہ ایسا کریں گے یعنی ہجرت کر کے دار الاسلام آجائیں گے تو ان کو وہی حقوق حاصل ہوں گے جو مہاجرین کو حاصل ہیں اور ان پر وہی ذمہ داریاں عائد ہوں گی جو مہاجرین پر عائد ہیں، اگر وہ ترک سکونت اختیار کرنے پر تیار نہ ہوں تو ان کو بتادو کہ ایسی صورت میں وہ دیہاتی مسلمانوں کی طرح ہوں گے اور ان پر اللہ کا ایسا حکم کیا جائے گا جو تمام مسلمانوں پر نافذ ہوتا ہے یعنی نماز و زکوٰۃ وغیرہ کا واجب ہونا اور قصاص ودیت جیسے احکام کا نافذ ہونا اور غنیمت وفئی کے مال میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوگا البتہ اس وقت حصہ ملے گا جب کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ شریک ہو کر جہاد کریں اور اگر وہ اسلام کی دعوت قبول نہ کریں اور مسلمان ہونے سے انکار کریں تو دوسری چیز یہ ہے کہ ان سے جزیہ دینا بھی قبول نہ کریں تو تیسری چیز یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کر کے ان سے جنگ شروع کردو۔ اور جب تم کسی قلعہ یا بستی کے لوگوں یعنی دشمن کا محاصرہ کرو اور وہ قلعہ یا بستی والے تم سے اللہ اور اس کے نبی ﷺ کا عہد مان لینا چاہیں تو تم ان کو اللہ اور اس کے نبی ﷺ کی طرف سے امان دینے کا عہد نہ کرنا البتہ اپنے اور اپنے رفقاء جہاد کی طرف سے عہد امان دے دینا کیونکہ اگر تم اپنے اپنے رفقاء کے دیئے ہوئے عہد امان کو توڑ دو گے تو یہ اللہ اور اس کے رسول کے عہد وامان کو توڑنے سے زیادہ سہل ہوگا۔ اور جب تم کسی قلعہ کے لوگوں کا محاصرہ کرو اور وہ قلعہ والے تم سے اللہ کے حکم پر اپنا محاصرہ اٹھا لینے کی درخواست کریں تو تم اللہ کے حکم پر ان کا محاصرہ نہ اٹھانا بلکہ اپنے حکم پر ان کا محاصرہ اٹھانا کیونکہ تمہیں یہ نہیں معلوم ہوسکتا کہ تم ان کے بارے میں فیصلہ کرتے وقت اللہ کے حکم تک پہنچ گئے ہو یا نہیں (یعنی تمہیں یہ کیسے معلوم ہوگا کہ تم نے ان کا محاصرہ اٹھا لینے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ اللہ کے نزدیک صحیح بھی ہے یا نہیں اور اس کے حکم کے مطابق بھی ہے یا نہیں اور ہوسکتا ہے کہ تم سے چوک ہوجائے گا جیسا کہ مجتہد کی شان ہے کہ وہ صحیح حکم تک بھی پہنچ جاتا ہے اور خطاء میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے )۔ (مسلم)

تشریح
اس حدیث میں اس ضابطہ کا اظہار کیا گیا ہے جو اسلام کے دشمنوں کے خلاف جہاد کرنے کے سلسلہ میں شریعت نے نافذ کیا ہے اور وہ ضابطہ یہ ہے کہ جب دشمن (مخالفین اسلام) سامنے آئیں تو سب سے پہلے ان کو اسلام کی دعوت دو، اگر وہ اس دعوت کو قبول نہ کریں تو ان سے یہ مطالبہ کرو کہ جزیہ ادا کر کے اسلامی مملکت کے وفادار شہری بن جاؤ اور اگر اس پر بھی تیار نہ ہوں تو پھر آخری صورت یہ ہے کہ ان کے خلاف جہاد کرو۔ (ثم ادعہم) (پھر ان کو اسلام کی دعوت دو ) اس جملہ سے ان تین چیزوں کا اظہار شروع کیا گیا ہے جن کا تعلق مذکورہ بالا ضابطہ سے ہے اور لفظ ثم (پھر) ذکر فرما کر گویا مخاطب امیر لشکر کو آگاہ کرنا مقصود ہے کہ جب تم نے ان تین چیزوں کو اجمالی طور پر جان لیا تو اب ان تینوں چیزوں کا تفصیلی حکم جان لو اور وہ یہ کہ پہلے ان کو اسلام کی دعوت دو پھر ان کے خلاف جہاد کرو۔ امام نووی فرماتے کہ تمام نسخوں میں (ثم ادعہم) ہی ہے لیکن قاضی عیاض نے فرمایا ہے کہ روایت کی زیادہ صحت اور موزونیت اسی میں معلوم ہوتی ہے کہ یہ یعنی ابتداء میں ادعہم بغیر لفظ ثم کے ہو چناچہ کتاب ابوعبید اور سنن ابوداؤد وغیرہ میں بھی یہ لفظ ثم کے بغیر ہے کیونکہ اس جملہ سے دراصل (ثلث خصال) (تین چیزوں) کی وضاحت بیان کی جا رہی ہے نہ کہ ان تینوں چیزوں کے علاوہ کسی اور چیز کی وضاحت مقصود ہے، حضرت مازری یہ کہتے ہیں کہ یہاں لفظ ثم معنی کے اعتبار سے تو زائد ہے لیکن جملہ میں اس کا استعمال آگے کی جانے والی بات کی ابتدائیہ کے طور پر ہے اور گویا یہ ان تین چیزوں میں سے پہلی چیز کی توضیح وبیان کے لئے ہے اور لفظ مع المسلمین تک اسی کا تتمہ ہے اس کے بعد دوسری چیز یعنی جزیہ کا مطالبہ کرنا اور پھر تیسری چیز یعنی جہاد کرنا کیا گیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے جو یہ حکم فرمایا کہ (اگر وہ لوگ اسلام کی دعوت قبول کریں تو) ان کو ہجرت کرنے کی دعوت دو تو بعض حضرات کے نزدیک اس حکم کی بنیاد یہ ہے کہ فتح مکہ سے ہجرت کرنا اسلام کا ایک رکن تھا۔ ان کو وہی حقوق حاصل ہوں گے یعنی مدینہ کے مہاجرین کو جو ثواب و فضیلت اور مال فئی کا جو استحقاق حاصل ہے یہی سب کچھ تمہیں بھی حاصل ہوگا۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں مہاجرین کو استحقاق حاصل ہے یہی سب کچھ تمہیں بھی حاصل ہوگا۔ چناچہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں مہاجرین کو استحقاق بایں طور پر حاصل تھا کہ ان کو امام کی طرف سے جہاد کا حکم ہوجانے پر جہاد کے لئے نکلنے کے وقت ہی سے ان پر مال فئی خرچ کیا جاتا تھا اور دشمن کے مقابلہ پر لڑنے والے مسلمانوں کی تعداد کافی ہونے کی صورت میں ان پر جہاد کے لئے نکلنا واجب نہیں تھا چناچہ اس ارشاد گرامی۔ (وعلیہم ما علی المہاجرین (اور ان پر وہی ذمہ داریاں عائد ہوں گی) کا مطلب بھی یہی ہے کیونکہ ذمہ داری سے مراد جہاد ہے۔ دیہاتی مسلمانوں سے مراد وہ مسلمان ہیں جو دار السلام کے دیہات وجنگلات میں رہتے ہوں نہ کہ دار الکفر میں بسنے والے دیہاتی مسلمان۔ غنیمت اور فئی کے ایک ہی معنی ہیں یعنی وہ مال جو کفار سے مسلمانوں کے ہاتھ لگے۔ لیکن بعض حضرات نے ان دونوں میں فرق کیا ہے کہ غنیمت اس مال کو کہتے ہیں جو جنگ کے ذریعہ اور محنت ومشقت کے ساتھ کفار سے حاصل ہو اور فئی اس مال کو کہتے ہیں جو جنگ اور مشقت کے بغیر کفار سے ہاتھ لگے۔ اگر تم اپنے اور اپنے رفقاء کے دئیے ہوئے عہد امان کو توڑ دو گے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم ان کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے عہد امان دو گے اور وہ کفار اس عہد امان کو کسی وقت توڑیں بایں طور کہ وہ ان شرائط کو پورا کرنے سے انکار کریں جن کی بنیاد پر ان کو وہ عہد امان ملا ہے تو اس صورت میں تمہارے لئے ان کے تئیں کوئی فیصلہ کرنا مشکل ہوجائے گا تاآنکہ تمہیں وحی یا دربار رسالت ﷺ کے ذریعے ان کے حق میں کوئی فیصلہ کرنے کی اجازت دی جائے جو اس وقت ممکن نہیں ہوگا۔ کیونکہ تم وحی یعنی دربار رسالت ﷺ سے دور رہو گے اس کے برخلاف اگر تم ان کو اپنی صورت میں تمہارے لئے ان کے تئیں فیصلہ کرنا مشکل نہیں ہوگا کہ تم ان کا پھر محاصرہ کر کے چاہے تو ان کو قتل کردو گے، چاہے جزیہ کا مطالبہ کرو گے، چاہے ان کو قیدی بنا لو گے اور یا ان علاوہ ان کے خلاف از روئے مصلحت جو بھی اقدام کرنا چاہو گے اس میں تمہیں مکمل اختیار حاصل ہوگا۔
Top