مکتوب نبوی ﷺ کے ساتھ شہنشاہ ایران کا نخوبت أمیز معاملہ اور اس پر اس کا وبال
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے کسری کے نام اپنا نامہ مبارک عبداللہ ابن خدا فہ سہمی کے ہاتھ روانہ کیا جو تقریبا اسی مضمون پر مشتمل تھا جو قیصر وغیرہ کو بھیجا گیا تھا اور ان کو یہ حکم دیا کہ وہ اس نامہ مبارک کو بحرین کے حاکم نے اس کو کسری کے پاس پہنچا دیا جب کسری تک پہنچا دے چناچہ عبداللہ ابن حزافہ نامہ مبارک بحرین کے حاکم کے پس لے گئے اور بحرین کے حاکم نے اس کو کسری کے پاس پہنچا دیا جب کسری نے وہ نامہ مبارک پڑھا تو بجائے اس پر عمل کرنے کے اس کو پھاڑ ڈالا حدیث کے ایک راوی ابن مسیب کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے کسری اور اس کی رعایا کے لئے یہ بددعا فرمائی کہ وہ پارہ پارہ کردیئے جائیں بالکل پارہ پارہ (بخاری)
تشریح
روم کی طرح فارس (ایران) بھی قدیم ترین شہنشاہیت کا گہوارہ تھا اور ایشیاء کی ایک عظیم الشان سلطنت تھی اس وقت اس کی حدود سلطنت ایک طرف سندھ تک پھیلی ہوئی تھیں اور دوسری جانب عرق اور عرب کے اکثر حصے یمن بحرین اور عمان بھی فارس ہی کے زیر اقتدار تھے اس کی اخلاقی حالت بھی گردو پیش کے ممالک کی طرح نہایت ابتر تھی یزدان اور اہرمن نیکی اور بدی کے دو اللہ سمجھے جاتے تھے ا اتش پرستی ملک کا عام مذہب تھا اس سلطنت کے شہنشاہ کا لقب خسرو ہوا کرتا تھا جس کا عربی لفظ کسری بنا لیا گیا تھا آنحضرت ﷺ نے جس خسرو یا کسری کے پاس نامہ مبارک بھیجا تھا اس کا نام پرویز تھا جو ہرمز ابن نوشیروان کا بیٹا تھا۔ تاریخی روایات میں آتا ہے کہ اس وقت ایران کا دستور یہ تھا کہ بادشاہوں کو جو خطوط لکھے جاتے تھے ان میں سب سے پہلے بادشاہ کا نام ہوتا تھا لیکن چونکہ نامہ مبارک کو وقت ایران کا دستور یہ تھا کہ بادشاہوں کو جو خطوط لکھے جاتے ہیں ان میں سب سے پہلے بادشاہ کا نام ہوتا تھا نامہ مبارک کو اللہ کے نام (بسم اللہ) سے شروع کیا گیا تھا، پھر سرور کائنات ﷺ کا نام تھا اس لئے جب وہ خسرو پرویز کے سامنے پڑھا گیا تو وہ سخت غضب ناک ہوا اور کہنے لگا کہ میرے غلام کو یہ جرأت ہے کہ وہ میرے نام اس طرح خط لکھے۔ اور پھر طیش میں آکر نامہ مبارک کو پر زے پر زے کردیا۔ قاصد رسول کریم ﷺ نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر یہ واقعہ عرض کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس طرح اس کی حکومت کے بھی پر زے پر زے ہوجائیں گے چناچہ نامہ مبارک کے ساتھ خسرو پرویز کے اس نخوت آمیز رویہ پر سرکار عالم ﷺ کی بددعا کا یہ نتیجہ نکلا کہ کچھ ہی عرصہ بعد طبری کی روایت کے مطابق ٣۔ جمادی الاول ٦٢٩ ء کی شب میں پرویز کو اسی کے بیٹے شیرویہ نے قتل کردیا اور پھر چھ مہینے کے بعد ہی اس کا بیٹا شیرویہ بھی مرگیا اور اس طرح اس کی حکومت و سلطنت پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایسا وبال پڑا اور ایسی لعنت نازل ہوئی کہ تھوڑی ہی مدت کے بعد ہزاروں برس کی اس عظیم الشان سلطنت کے پر زے اڑ گئے۔