مشکوٰۃ المصابیح - کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان - حدیث نمبر 189
وَعَنْہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم ((کَلَامِیْ لَا یَنْسَخُ کَلَامَ اﷲِ وَ کَلَامُ اﷲِ یَنْسَخُ کَلَامِیْ وَ کَلَامُ اﷲِ یَنْسَخُ بَعْضُہ، بِعْضًا))
کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان
اور حضرت جابر ؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا میرا کلام، کلام اللہ کو منسوخ نہیں کرتا اور کلام اللہ میرے کلام کو منسوخ کردیتا ہے اور کلام اللہ کا بعض کو منسوخ کرتا ہے۔

تشریح
نسخ کے معنی لغت میں کسی چیز کو مٹانے یا نقل و تحویل کے آتے ہیں جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ نسخت الریح اثار القوم۔ کہ ہوا نے لوگوں کے پاؤں کے نشان مٹا دیئے یا اسی طرح بولتے ہیں نسخ الکتاب الی کتاب کہ ایک جگہ سے کتاب کو دوسری طرف نقل کیا۔ علماء کی اصطلاح میں نسخ اسے کہتے کہ کسی حکم شرعی کا اصلاح دین کی خاطر کسی دوسرے حکم کے ذریعہ تغیر و تبدل کیا جائے۔ یا کسی حکم کو نافذ کرنا کہ جس کے اور اس سے پیشتر کا حکم جو مقدم تھا اٹھ جائے اوّل حکم کو منسوخ اور دوسرے حکم کو ناسخ کہتے ہیں۔ نسخ کی چار قسمیں ہیں۔ (١) کتاب اللہ کا نسخ کتاب اللہ کے ساتھ (٢) حدیث کا نسخ حدیث کے ساتھ (١) کتاب اللہ کا نسخ حدیث کے ساتھ (٤) حدیث کا نسخ کتاب اللہ کے ساتھ۔ اس کی توضیح یہ ہے کہ مثلاً پہلے کوئی حکم قرآن میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے اتارا گیا لیکن بعد میں کسی خاص مصلحت کی وجہ سے قرآن کی کسی دوسری آیت نے آکر اس حکم کو منسوخ کردیا، اب اس کی بھی دو شکلیں ہوں گی، یا تو وہ آیت قرآن میں باقی رہے اور صرف تلاوت کی جاتی رہے مگر اس کا حکم کالعدم قرار دیا گیا۔ یا یہ کہ حکم کے ساتھ آیت بھی منسوخ کردی گئی اور اسی طرح نسخ کی دوسری شکل یہ ہے کہ حدیث کے کسی حکم کو حدیث ہی کے ذریعہ منسوخ کردیا گیا ہو، تیسری شکل نسخ کی یہ ہے کہ قرآن کے کسی حکم کو حدیث کے ذریعہ رسول اللہ ﷺ نے منسوخ فرمایا ہو لیکن اس میں کسی قسم کا یہ اشکال پیدا نہیں ہوسکتا کہ حکم الہٰی کو رسول ﷺ جو ایک انسان ہوتا ہے کس طرح کالعدم قرار دے سکتا ہے یہ اشکال وہیں رفع ہوگیا ہے جہاں یہ بتلا دیا گیا ہے کہ حدیث بظاہر تو رسول اللہ ﷺ کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کے مجموعہ کا نام ہے لیکن حقیقت میں حدیث بھی وحی من اللہ ہے فرق صرف اتنا ہے کہ قرآن ایسی وحی ہے جس کی تلاوت نہیں کی جاتی اور جس کا مضمون براہ راست بار گاہ الوہیت سے اترتا ہے لیکن الفاظ رسول کے ہوتے ہیں اس صورت میں یہ حدیث متعارض نظر آئے گی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث قرآن کے حکم کو منسوخ نہیں کرسکتی۔ لہٰذا اس کا جواب یہی ہوگا کہ حدیث میں لفظ کلامی سے مراد رسول اللہ ﷺ کا وہ ارشاد ہے جو خود رسول اللہ کی ذاتی رائے اور اجتہاد کے طریقہ پر وارد ہو، نہ کہ وہ ارشاد جو بطور وحی آپ ﷺ کے قلب پر القاء فرمایا گیا ہے اس تاویل کے بعد یہ تعارض رفع ہوجائے گا۔ یا پھر یہ تاویل کی جائے گی کہ یہ حدیث خود منسوخ ہے لہٰذا اس سے اس کلیہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ چوتھی شکل نسخ کی یہ ہے کہ حدیث کے کسی حکم کو کتاب اللہ کے ذریعہ منسوخ قرار دے دیا گیا، یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہئے کہ کسی قانون میں تبدیلی یا کسی حکم کی منسوخی دو وجہ سے ہوتی ہے اوّل تو یہ کہ قانون بناتے وقت بانی قانون سے کوئی فروگزاشت یا غلطی ہوگئی جس کی وجہ سے بعد میں اس قانون میں تبدیلی اور منسوخی ضروری قرار دی گئی۔ ظاہر ہے کہ کلام اللہ میں یہ محال ہے اس لئے کہ اللہ کی علیم وخبیر ذات کسی قسم کی غلطی، بھول چوک یا فروگزاشت سے بالکل منزّٰی و پاک و صاف ہے اس لئے جو بھی قانون بنائے گا یا جو بھی حکم دے گا وہ بالکل صحیح و کامل ہوگا اس میں کسی غلطی کا امکان بھی نہیں ہوسکتا اسی طرح رسول کے بتائے ہوئے احکام میں بھی یہ چیز نہیں ہوسکتی کیونکہ ایسے احکام جن کا تعلق دینی امور سے ہوتا ہے وہ براہ راست بارگاہ الوہیت سے نازل ہوئے ہیں اور دربار رسالت سے ان کا انعقاد عمل میں آتا ہے گویا وہ خود بھی احکام اللہ کے مرتبہ کے ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جس طرح قرآن کے احکام پر عمل کرنا فرض ہے اسی طرح حدیث کے احکام کی پیروی کرنا بھی ضروری و لازم ہے لہٰذا حدیث کے احکام میں بھی کسی حکم کی تبدیلی کا سبب یہ نہیں ہوسکتا۔ کسی قانون و حکم کی تبدیلی و منسوخی کی دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ محکوم کی حالت بدلنے سے مصلحت بھی بدل گئی ہے اس لئے قانون بھی بدل گیا جیسے کہ مریض کی حالت بدل جانے پر نسخہ بھی بدل دیا جاتا ہے۔ مثلاً ایک قانون بنایا گیا یا کوئی حکم دیا گیا اس وقت ماحول اس قسم کے قانون کا متقاضی تھا، یا محکوم کے ذہن مزاج اسی حکم کے لائق تھے مگر بعد میں جب ماحول میں تبدیلی آگئی، محکوم کے ذہن و مزاج بھی دوسرا رخ اختیار کر گئے تو اب بانی قانون کی مصلحت بھی بدل گئی لہٰذا اس نے محکوم اور ماحول کی بھلائی اور اصلاح کی خاطر اس سے پہلے قانون کو بدل دیا اور اس جگہ کسی دوسرے قانون کو لاگو کردیا ظاہر ہے کہ ایسا نسخ صحیح اور جائز ہوگا اس میں کسی قسم کا کوئی عقلی و نقلی اشکال پیدا نہیں ہوسکتا اور یہی تبدیلی و تفسیر اور نسخ قرآن و احادیث کے احکام میں ہوتے ہیں لہٰذا ان میں کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا۔
Top