مشکوٰۃ المصابیح - کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان - حدیث نمبر 165
وَعَنْ بِلَالِ بْنِ حَارِثِ الْمُزَنِیْ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم((مَنْ اَحْیَا سُنَّۃً مِّنْ سُنَّتِیْ قَدْ اُمِیْتَتْ بَعْدِیْ فَاِنَّ لَہ، مِنَ الْاَجْرِ مِثْلَا اُجُوْرِ مِنْ عَمِلَ بِھَا مِنْ غَیْرِ اَنْ یَّنْقُصَ مِنْ اُجُوْرِھِمْ شَیْئًا وَّمَنِ ابْتَدَعَ بِدْعَۃً ضَلَالَۃً لَا یَرْضَا ھَا اﷲُ وَرَسُوْلُہ، کَانَ عَلَیْہِ مِنَ الْاِ ثْمِ مِثْلَا اٰثَامِ مِنْ عَمِلَ بِھَا لَا یَنْقُصُ مِنْ اَوْزَارِھِمْ شَیْئًا)) رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَرَوَاہُ ابْنُ مَاجَۃَ عَنْ کَثِیْرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ بْنِ عَمْرِوعَنْ اَبِیْہٖ عَنْ جَدِّہٖ۔
کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان
اور حضرت بلال بن حارث مزنی (اسم گرامی بلال بن حارث اور کنیت ابوعبدالرحمن ہے، آخر میں آپ نے بصرہ میں سکونت اختیار فرمائی تھی حضرت معاویہ ؓ کے آخر زمانہ میں ٩٠ ھ بعمر اسی سال آپ کا انتقال ہوا۔ (راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ جس آدمی نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا (یعنی رائج کیا) جو میرے بعد چھوڑ دی گئی تھی تو اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ اس سنت پر عمل کرنے والوں کو ملے گا بغیر اس کے کہ اس (سنت پر عمل کرنے والوں) کے ثواب میں کچھ کمی کی جائے۔ اور جس آدمی نے گمراہی کی کوئی ایسی نئی بات (بدعت) نکالی جس سے اللہ اور اس کا رسول خوش نہیں ہوتا تو اس کو اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا کہ اس بدعت پر عمل کرنے والوں کو گناہ ہوگا بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی کی جائے۔ (جامع ترمذی) اور اس روایت کو سنن ابن ماجہ نے کثیر بن عبداللہ بن عمر سے اور عمر نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت کیا ہے۔

تشریح
مطلب یہ ہے کہ سنت پر عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوتی اور سنت کو رائج کرنے والے کو بھی اس کے برابر ثواب ملتا ہے، اسی طرح بدعت پر عمل کرنے والوں کے گناہوں میں کچھ کمی نہیں ہوتی اور بدعت پیدا کرنے والے کے نامہ اعمال میں اس کے برابر گناہ لکھا جاتا ہے۔ یہاں سنت سے مراد مطلق دین کی بات ہے خواہ وہ فرض ہو یا واجب وغیرہ جیسے کہ نماز جمعہ کہ لوگوں نے اسے چھوڑ رکھا ہو اور اسے تبلیغ و ارشاد کے ذریعہ قائم کیا جائے یا ایسے ہی مصافحہ اور دیگر مسنون چیزیں جو متروک العمل ہوچکی ہوں، ان سب کو رائج کرنا بیشمار حسنات کو موجب ہے۔
Top