مشکوٰۃ المصابیح - کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان - حدیث نمبر 149
وعَنْ عَبْدِاللّٰہِ ابْنِ عَمْرٍورَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمَا قَالَ ھَجَّرْتُ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےَوْمًا قَالَ فَسَمِعَ اَصْوَاتَ رَجُلَےْنِ اخْتَلَفَا فِیْ اٰےَۃٍ فَخَرَجَ عَلَےْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ےُِعْرَفُ فِیْ وَجْھِہٖ الْغَضَبُ فَقَالَ اِنَّمَا ھَلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ بِاِخْتِلَافِھِمْ فِیْ الْکِتَابِ۔(صحیح مسلم)
کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان
اور حضرت عبداللہ بن عمرو ؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، حضرت عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے دو آدمیوں کی آوازیں سنیں جو ایک (متشابہ) آیت میں اختلاف کر رہے تھے یعنی اس کے معنی میں جھگڑ رہے تھے، آنحضرت ﷺ ہمارے درمیان تشریف لائے (اس وقت) آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر غصہ کے آثار نمایاں تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا تم سے پہلے کے لوگ کتاب (الہٰی) میں اختلاف کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں۔ (صحیح مسلم)

تشریح
اس سے مراد وہ اختلاف ہے جس کی وجہ سے قلوب شک میں گرفتار ہوں، یا ایمان میں کمزوری پیدا ہو اور آپس میں فتنہ و فساد اور دشمنی کا سبب نیز کفر و بدعت کا باعث ہو، جیسے نفس قرآن میں اختلاف کرنا، اس کے معنی و مطالب میں فرق پیدا کرنا، ظاہر ہے کہ ان چیزوں میں نہ تو اجتہاد جائز ہے اور نہ اختلاف کرنا صحیح ہے، ہاں علمائے مجتہدین کے اختلاف صحیح ہیں جو اللہ کی رحمت کا باعث اور دین و شریعت میں وسعت کا ذریعہ ہیں، چناچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیهم سے اس طرح کا اجتہادی اختلاف جو فائدہ مند ہے، منقول ہے جو جائز تھا اور جس کی وجہ سے بیشمار مسائل کا استنباط ہوا اور امت ان سے منتفع ہوگئی۔
Top