مشکوٰۃ المصابیح - کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان - حدیث نمبر 144
وَعَنْ رَّافِعِ ص بْنِ خَدِےْجٍ صقَالَ قَدِمَ نَبِیُّ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم الْمَدِےْنَۃَ وَھُمْ ےُؤَبِّرُوْنَ النَّخْلَ فَقَالَ مَا تَصْنَعُوْنَ قَالُوْا کُنَّا نَصْنَعُہُ قَالَ لَعَلَّکُمْ لَوْ لَمْ تَفْعَلُوْا کَانَ خَےْرًا فَتَرَکُوْہُ فَنَقَصَتْ قَالَ فَذَکَرُوْا ذَالِکَ لَہُ فَقَالَ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ اِذَا اَمَرْتُکُمْ بِشیءٍ مِّنْ اَمْرِ دِےْنِکُمْ فَخُذُوْا بِہٖ وَاِذَا اَمَرْتُکُمْ بِشَیءٍ مِّنْ رَّاْےِیْ فَاِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ۔ (صحیح مسلم)
کتاب اور سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بیان
حضرت رافع بن خدیج ؓ (حضرت رافع بن خدیج انصاری اوسی ہیں جس وقت حق و باطل کے درمیان جنگ بدر ہوئی اس وقت یہ بہت کم سن تھے ٤٢ ھ میں بعمر ٥٦ سال انتقال فرمایا۔ اسد الغابہ) بیان کرتے ہیں کہ (جب) سرکار دو عالم ﷺ مدینہ تشریف لائے اس وقت مدینہ کے لوگ کھجور کے درختوں میں تابیر کیا کرتے تھے رسول اللہ ﷺ نے (یہ دیکھ کر) فرمایا تم یہ کیا کرتے ہو؟ اہل مدینہ نے عرض کیا، ہم ایسا ہی کرتے رہے ہیں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر تم ایسا نہ کرو تو شاید بہتر ہو، چناچہ لوگوں نے آپ ﷺ کا یہ ارشاد سن کر اسے چھوڑ دیا اور اس سال پھل کم آیا، راوی فرماتے ہیں کہ اس کا تذکرہ رسول اللہ ﷺ سے کیا گیا، آپ ﷺ نے فرمایا میں بھی ایک آدمی ہوں لہٰذا جب میں تمہیں کسی ایسی چیز کا حکم دوں جو تمہارے دین کی ہو تو اسے قبول کرلو اور جب میں کوئی بات اپنی عقل سے تمہیں بتاؤں تو سمجھ لو کہ میں بھی انسان ہوں۔ (صحیح مسلم)

تشریح
کھجور کے درختوں میں ایک درخت نر ہوتا ہے اور دوسرے مادہ ہوتے ہیں۔ مدینہ والے یہ کیا کرتے تھے کہ نر درخت کا پھل مادہ درختوں پر جھاڑتے یا ان میں لگا دیتے تھے اس سے ان کا خیال تھا کہ پھل زیادہ آتے ہیں اسی کو تابیر کرنا کہا جاتا ہے، آخر حدیث میں رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کے معنی یہ ہیں کہ میں بھی ایک انسان ہوں دنیاوی اسباب کے سلسلہ میں مجھ سے خطا بھی واقع ہوسکتی ہے اور صواب بھی، مگر میں کسی دنیاوی معاملہ میں اپنی کسی ایسی اجتہادی رائے کا اظہار کروں جو وحی کے زیر حکم نہ ہو تو اس پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے چناچہ اس معاملہ میں آپ ﷺ نے جب دیکھا کہ یہ چیز امور جاہلیت میں سے ہے اور اس کی تایثر پھلوں کی کمی و زیادتی میں کچھ معقول نظر نہیں آتی اور اس کا خیال نہیں فرمایا کہ شاید اس کی تاثیر کچھ منجانب اللہ ہی سے ہوتی ہو اس لئے آپ ﷺ نے اس کو ترک کردینے کے لئے فرمایا لیکن حکم نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ اگر یہ عمل نہ کرو تو بهتر ہوگا۔ جب تجربہ کے بعد آپ ﷺ نے یہ دیکھ لیا کہ یہ تو ایک قدرتی چیز ہے کہ جب نر درخت کے پھلوں کو مادہ درخت میں لگا دیتے ہیں تو اس سے پھل کثرت سے آتے ہیں اور اس عمل کے خلاف اللہ کی جانب سے کوئی وعید نہیں آئی ہے تو آپ ﷺ نے سکوت فرمایا۔ یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو دنیا کی طرف التفات نہ تھا اور نہ آپ ﷺ کی غرض دنیا تھی بلکہ امور آخرت کے مسائل و احکام اور دینی معاملات میں آپ ﷺ کو زیادہ اہتمام تھا۔ بعض دوسری احادیث میں اس واقع کے بیان کے سلسلہ میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اتنم اعلم بامور دنیاکم یعنی تم اپنی دنیا کے امور کو خوب جاتنے ہو! اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ دنیاوی اموری کی طرف مجھے التفات نہیں ہے ورنہ جہاں تک رائے و عقل کا معاملہ ہے اس میں ذرہ برابر بھی شبہ نہیں ہے رسول اللہ ﷺ دینی اور دنیاوی دونوں معاملات میں سب سے زیادہ عقل مند و صائب الرائے تھے۔
Top