مشکوٰۃ المصابیح - وصیتوں کا بیان - حدیث نمبر 3105
وعن سعد بن أبي وقاص قال : مرضت عام الفتح مرضا أشفيت على الموت فأتاني رسول الله صلى الله عليه و سلم يعودني فقلت : يا رسول الله : إن لي مالا كثيرا وليس يرثني إلا ابنتي أفأوصي بمالي كله ؟ قال : لا قلت : فثلثي مالي ؟ قال : لا قلت : فالشطر ؟ قال : لا قلت : فالثلث ؟ قال : الثلث والثلث كثير إنك أن تذر ورثتك أغنياء خير من أن تذرهم عالة يتكففون الناس وإنك لن تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله إلا أجرت بها حتى اللقمة ترفعها إلى في امرأتك (2/196) الفصل الثاني (2/196) 3072 - [ 3 ] ( لم تتم دراسته ) عن سعد بن أبي وقاص قال : عادني رسول الله صلى الله عليه و سلم وأنا مريض فقال : أوصيت ؟ قلت : نعم قال : بكم ؟ قلت : بمالي كله في سبيل الله . قال : فما تركت لولدك ؟ قلت : هم أغنياء بخير . فقال : أوص بالعشر فما زالت أناقصه حتى قال : أوص بالثلث والثلث كثير . رواه الترمذي
اپنے ترکہ کے تہائی حصہ میں وصیت کی جاسکتی ہے
اور سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ میں فتح مکہ کے سال اتنا سخت بیمار ہوا کہ موت کے کنارہ پر پہنچ گیا چناچہ جب رسول کریم ﷺ میری عیادت کے لئے میرے پاس تشریف لائے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ میرے پاس بہت مال ہے مگر ایک بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں ہے تو کیا میں اپنے سارے مال کے بارے میں وصیت کر جاؤں، آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں پھر میں نے عرض کیا کہ کیا دو تہائی مال کے بارے میں وصیت کر دوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا نصف کے لئے فرمایا نہیں، میں نے پوچھا کہ ایک تہائی کے لئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہاں تہائی مال کے بارے میں وصیت کرسکتے ہو اگرچہ یہ بھی بہت ہے اور یاد رکھو اگر تم اپنے وارثوں کو مال دار وخوش حال چھوڑ جاؤ گے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم ان کو مفلس چھوڑ جاؤ اور وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں جان لو تم اپنے مال کا جو بھی حصہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے جذبہ سے خرچ کرو گے تو تمہیں اس کے خرچ کا ثواب ملے گا یہاں تک کہ تمہیں اس لقمہ کا بھی ثواب ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ تک لے جاؤ گے ( بخاری ومسلم)

تشریح
میرا کوئی وارث نہیں ہے سے حضرت سعد کی مراد یہ تھی کہ ذوی الفروض سے میرا کوئی وارث نہیں ہے یا یہ کہ ایسے وارثوں میں سے کہ جن کے بارے میں مجھے یہ خوف نہ ہو کہ وہ میرا مال ضائع کردیں گے علاوہ ایک بیٹی کے اور کوئی وارث نہیں ہے، حضرت سعد کے اس جملہ کی یہ تاویل اس لئے کی گئی ہے کہ حضرت سعد کے کئی عصبی وارث تھے۔ یہ حدیث جہاں اس بات کی دلیل ہے کہ مال جمع کرنا مباح ہے وہیں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ وارثوں کے حق میں عدل و انصاف کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جس میت کے وارث موجود ہوں تو اس کی وصیت اس کے تہائی مال سے زائد میں جاری نہیں ہوتی، البتہ اگر وہ ورثاء اپنی اجازت و خوشی سے چاہیں تو ایک تہائی سے زائد میں بھی بلکہ سارے ہی مال میں وصیت جاری ہوسکتی ہے بشرطیکہ سب وارث عاقل و بالغ اور موجود ہوں اور جس میت کا کوئی وارث نہ ہو تو اس صورت میں بھی اکثر علماء کا یہی مسلک ہے کہ اس کی وصیت بھی ایک تہائی سے زائد میں جاری نہیں ہوسکتی۔ البتہ حضرت امام اعظم اور ان کے متبعین علماء اس صورت میں ایک تہائی سے زائد میں بھی وصیت جاری کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں نیز حضرت امام احمد اور حضرت اسحق کا بھی یہی قول ہے۔ اس حدیث میں اس بات کی ترغیب دلائی گئی ہے کہ رشتہ داروں اور عزیزوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے ان کے حق میں ہمیشہ خیر خواہی کا جذبہ رکھا جائے اور وارثوں کے تئیں شفقت و محبت ہی کے طریقے کو اختیار کیا جائے علاوہ ازیں اس حدیث سے اور بھی کئی باتیں معلوم ہوئیں۔ اول یہ کہ اپنا مال غیروں کو دینے سے افضل یہ ہے کہ اس کو اپنے قرابتداروں پر خرچ کیا جائے دوم یہ کہ اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنے سے ثواب ملتا ہے بشرطیکہ اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی طلب پیش نظر ہو اور سوم یہ کہ اگر کسی مباح کام میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی نیت کرلی جائے تو وہ مباح کام بھی طاعت و عبادت بن جاتا ہے چناچہ بیوی اگرچہ جسمانی و دنیوی لذت و راحت کا ذریعہ ہے اور خوشی ومسرت کے وقت اس کے منہ میں نوالہ دینا محض ایک خوش طبعی ہے جس کا طاعت و عبادت اور امور آخرت سے کوئی بھی تعلق نہیں ہوتا مگر اس کے باوجود آنحضرت ﷺ نے یہ بتایا کہ اگر بیوی کے منہ میں نوالہ دینے میں اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی طلب کی نیت ہو تو اس میں ثواب ملتا ہے لہذا اس کے علاوہ دوسری حالتوں میں تو بطریق اولی ثواب ملے گا۔ الفصل الثانی حضرت سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ جب میں بیمار تھا تو رسول کریم ﷺ مجھے پوچھنے آئے چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیا تم نے وصیت کرنے کا ارادہ کیا ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں آپ ﷺ نے فرمایا کتنے مال کی وصیت کا تم نے ارادہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے تو اللہ کی راہ میں اپنے سارے مال کی وصیت کرنے کا ارادہ کرلیا ہے آپ نے فرمایا اولاد کے لئے کیا چھوڑا میں نے عرض کیا کہ وہ خود مال دارخوشحال ہیں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اگر وصیت کرنا ہی چاہتے ہو تو اپنے مال کے دسویں حصہ کے بارے میں وصیت کردو حضرت سعد کہتے ہیں کہ جب میں آپ ﷺ کی بتائی ہوئی اس مقدار کو بار بار کم کہتا رہا تو میرے اصرار پر آپ نے فرمایا کہ اچھا تہائی مال کے بارے میں وصیت کردو اگرچہ یہ تہائی بھی بہت ہے ( ترمذی)
Top