مشکوٰۃ المصابیح - وتر کا بیان - حدیث نمبر 1265
وَعَنْ اَبِی مَالِکِ الْاَشْجَعِیِّ قَالَ قُلْتُ لِاَبِی یَا اَبَتِ اِنَّکَ قَدْ صَلَّیْتَ خَلْفَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاَبِیْ بِکْرٍ وَّ عُمَرَ وَ عُثْمَانَ وَ عَلِیٍّ ھٰھُنَا بِالْکُوَفَۃِ نَحْوًَا مِّنْ خَمْسِ سَنِیْنَ اَکَانُوْا یَقْتَنُوْنَ قَالَ اَیْ بُنَیَّ مُحْدَثٌ۔ (رواہ الترمذی والنسا ئی وابن ماجۃ)
دعاء قنوت کس وقت پڑھنی چاہیے؟
اور حضرت ابومالک اشجعی (رح) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد مکرم سے دریافت کیا کہ ابا جان! آپ نے سرور کونین ﷺ کے پیچھے، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ ؓ کے پیچھے یہیں کوفہ میں تقریباً پانچ سال تک نماز پڑھی ہے کیا یہ حضرات دعاء قنوت پڑھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ میرے بیٹے! قنوت بدعت ہے۔ (جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)

تشریح
حضرت ابومالک اپنے والد محترم سے یہ معلوم کرنا چاہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ اور خلفاء اربعہ بھی فجر کی نماز میں اور دیگر نمازوں میں قنوت پڑھتے تھے جیسا کہ اب بھی بعض لوگ ان نمازوں میں قنوت پڑھتے ہیں؟ اس کا جواب ان کے والد نے یہ دیا کہ جو لوگ فجر کی اور دوسری نمازوں میں مستقل طریقے سے یعنی ہمیشہ دعاء قنوت پڑھتے ہیں وہ بدعت میں مبتلا ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے تو وتر کے علاوہ فجر کی نماز میں صرف ایک مہینہ تک قنوت پڑھی ہے اس کے بعد آپ ﷺ نے ترک کردیا تھا جیسا کہ ابھی پچھلی حدیث میں ذکر کیا گیا، گویا کہ یہ حدیث حضرت امام ابوحنیفہ کی دلیل ہے۔ حضرات شوافع فرماتے ہیں کہ جن احادیث میں نماز فجر کے اندر قنوت نہ پڑھنا ذکر کیا گیا ہے وہ سب ضعیف ہیں لیکن ملا علی قاری نے اس قول کا جواب بہت معقول اور مدلل طریقے سے دیا ہے نیز انہوں نے خلفاء اربعہ سے بھی اس طرح کی روایتیں نقل کی ہیں اس بحث کی تفصیل ان کی شرح میں دیکھی جاسکتی ہے۔
Top