مشکوٰۃ المصابیح - وتر کا بیان - حدیث نمبر 1261
عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ اِذَا اَرَادَ اَنْ ےَّدْعُوَ عَلٰی اَحَدٍ اَوْ ےَدْعُوَ لِاَحَدٍ قَنَتَ بَعْدَالرُّکُوْعِ فَرُبَّمَا قَالَ اِذَا قَالَ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ اَللّٰھُمَّ اَنْجِ الْوَلِےْدَ بْنَ الْوَلِےْدِ وَسَلَمَۃَ بْنَ ھِشَامٍ وَّعَےَّاشَ ابْنَ اَبِیْ رَبِےْعَۃَ اَللّٰھُمَّ اشْدُدْ وَطْاَتَکَ عَلٰی مُضَرَ وَاجْعَلْھَا سِنِےْنَ کَسِنِیْ ےُوْسُفَ ےَجْھَرُ بِذَالِکَ وَکَانَ ےَقُوْلُ فِیْ بَعْضِ صَلٰوتِہٖ اَللّٰھُمَّ الْعَنْ فلَانًا وَفُلَانًا لِّاَحْےَآءٍ مِّنَ الْعَرَبِ حَتّٰی اَنْزَلَ اللّٰہُ لَےْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَئٌ (اَلْاَےَۃَ۔) (آل عمران ٣:)(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
رحمت عالم ﷺ کو بد دعا کی ممانعت
حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ جب کسی کو بدعا دیتے یا کسی کے لئے دعا کرنے کا ارادہ فرماتے تو رکوع کے بعد قنوت پڑھتے، چناچہ بعض وقت جب کہ آپ ﷺ سمع اللہ لم حمدہ ربنا لک الحمد کہہ لیتے تو یہ دعا کرتے الِلّٰھُمَّ اَنْجِ الْوَلِیْد ابنَ الَوَلِیْدِ وَسَلَمَۃَ بْنَ ھِشَامٍ وَعَیَّاشَ بْنَ اَبِیْ رَبِیْعَۃَ الِلَّھُمَّ اشْدُدْ وَطْاَ تَکَ عَلٰی مُضَرَ وَ اجْعَلْھَا سِنِیْنَ کَسِنِیْ یُوْسُفَ (اے اللہ! ولید بن سلمہ بن ہشام کو اور عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے اور اے اللہ! قوم مضر پر تو اپنا سخت عذاب نازل کر اور اس عذاب کو ان پر قحط کی صورت میں مسلط کر، ایسا قحط جو یوسف کے قحط کی مانند ہو (یعنی قوم مضر پر تو اپنا عذاب اس قحط کی شکل میں مسلط کر جو حضرت یوسف کے زمانہ میں قوم پر مسلط گیا تھا) یہ دعا آپ ﷺ بآواز بلند کرتے تھے اور کسی نماز میں آپ ﷺ عرب کے (ان) قبائل کے لئے جو کافر تھے) اس طرح بددعا فرماتے اَللّٰھُمَّ الْعَنْ فُلَاناً وَفُلاَناً (اے اللہ! فلاں فلاں پر لعنت فرما) پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لیس لک من الامر شییء الایۃ (اس معاملہ میں آپ ﷺ کا کچھ دخل نہیں ہے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم )

تشریح
بعض صحابہ کرام جو کفار کی قید میں تھے اور ان کے ظلم و ستم کا تختہ مشق بنے ہوئے تھے ان کی رہائی ونجات کے لئے رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ سے دعا فرمایا کرتے تھے اور عرب کے وہ قبائل جو مسلمانوں کا قافیہ تنگ کئے رہتے تھے ان کے لئے بد دعا فرماتے تھے، چناچہ ولید ابن الولید قریشی مخزومی جو اسلام کے مایہ ناز فرزند اور اسلامی فوج کے کمانڈر انچیف حضرت خالد بن ولید کے بھائی تھے، جنگ بدر کے موقع پر کفار مکہ کی جانب سے حضرت عبداللہ بن جحش کے ہاتھوں گرفتار ہوئے، ان کے بھائی خالد اور ہشام دربار رسالت میں حاضر ہوئے اور اسیر بھائی کی طرف سے چار ہزار در ہم بطور فدیہ دے کر ان کو رہا کرایا اور مکہ لے گئے۔ ولید جب رہا ہو کر مکہ پہنچے تو وہاں اسلام کی مقدس روشنی نے ان کے قلب و دماغ کو منور کیا اور وہ مسلمان ہوگئے لوگوں نے ان سے کہا کہ جب تم مسلمانوں کے پاس مدینہ میں قید تھے تو اسی وقت فدیہ دینے سے پہلے ہی مسلمان کیوں نہیں ہوگئے کیونکہ وہاں مسلمان ہوجانے کی شکل میں چار ہزار درہم جو فدیئے میں دئیے وہ بھی بچ جاتے اور مسلمان بھی ہوجاتے؟ انہوں نے کہاں کہ مجھے یہ کچھ اچھا نہیں لگا کہ لوگ یہ کہیں کہ قید سے گھبرا کر سلام لے آیا۔ مکہ کے کفار اور قبیلے کے لوگوں کو یہ کیسے گوارا ہوتا کہ ولید اسلام لے آئیں اور اس کی سزا انہیں نہ ملے چناچہ بھائیوں نے انہیں قید میں ڈال دیا اور جتنا بھی ظلم ان پر ہوسکتا تھا کیا گیا، رسول اللہ ﷺ کو جب ان کی حالت مظلومیت کا پتہ چلا تو آپ ﷺ نے پروردگار کی بارگاہ میں ان کی رہائی اور نجات کے لئے دعا مانگی، اس طرح وہ کفار مکہ کے چنگل سے بچ کر مدینہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آگئے۔ سلمہ بن ہشام، ابوجہل کے بھائی تھے اور بالکل ابتدائی دور میں اسلام لے آئے تھے، کفار مکہ نے انہیں بھی قید کر رکھا تھا اور ان پر انتہائی ظلم و جور کرتے تھے، یہ بھی ان کے ہاتھوں سے نکل کر مدینہ میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں آگئے۔ عیاش بن ابی ربیعہ بھی ابوجہل کی ماں کی طرف سے اخیافی بھائی تھے، قدیم الاسلام ہیں، ابتدائی دور میں اسلام کی دولت سے مشرف ہو کر حبشتہ ہجرت کر گئے تھے۔ جب مدینہ آئے اور ان سے کہا گیا کہ تمہاری ماں تمہارے لئے سخت بےچین ہے اور اس نے قسم کھائی ہے کہ جب تک تمہیں دیکھ نہیں لے گی، سائے میں نہیں بیٹھ گی۔ عیاش کو ماں کی محبت ابوجہل جیسے ظالم آدمی کے پاس کھینچ لائی۔ مکہ پہنچ کر ابوجہل نے انہیں باندھ کر قید میں ڈال دیا اور ان پر ظلم کر کے اپنے جذبہ و حشت و بربریت کی تسکین حاصل کرتا رہا تاآنکہ یہ بھی اس قید سے نکل بھاگنے میں کامیاب ہوگئے اور پھر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مدینہ آگئے۔ آخر میں معرکہء تبوک کے موقع پر کفار سے مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا۔ یہ وہ خوش نصیب اصحاب تھے جن کی رہائی و نجات کے لئے رسول اللہ ﷺ کی لسان مقدس دعا میں مشغول ہوتی تھی، گویا حدیث کی پہلی دعا اللھم انج الخ اس بات کی مثال ہے کہ رسول اللہ ﷺ قنوت میں مومنین کے لئے دعا فرماتے تھے۔ حدیث کی دوسری دعا اللھم اشددالخ اس بات کی مثال ہے کہ آپ ﷺ قنوت میں ظلم و ستم کے پیکر کفار کے لئے بد دعا فرماتے ہیں، چناچہ آپ ﷺ کی بد دعا کا اثر یہ ہوا کہ اہل مکہ سات سال تک مسلسل قحط میں گرفتار رہے یہاں تک کہ انہوں نے مردار کی ہڈیاں کھا کر زندگی کے وہ سخت دن پوری کئے۔ آیت (لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ) 3۔ آل عمران 128) کا حاصل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی شان رحمت کے مناسب چونکہ یہ نہیں تھا کہ آپ ﷺ کسی کے لئے بدد عا فرمائیں اس لئے آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے منع فرما دیا گیا کہ کسی آدمی کے لئے اس کا نام لے کر آپ ﷺ بد دعا نہ فرمائیں چناچہ شروع باب میں اس کی تفصیل ذکر کی جا چکی ہے۔ کسی آفت و بلا کے وقت دعاء قنوت فرضی نمازوں میں پڑھنی چاہیے علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی حادثہ پیش آجائے مثلاً دشمن حملہ آور ہو، قحط اپنی لپیٹ میں لے لے، کوئی وبا پھیل جائے، خشک سالی ہوجائے، یا اس قسم کی کوئی بھی صورت پیش آجائے جس سے مسلمان مصیبت و تکلیف میں مبتلا ہوجائیں تو لوگوں کو چاہیے کہ وہ تمام فرض نمازوں میں دعا قنوت پڑھنے کا اہتمام کریں۔ چنانچہ حضرات حنفیہ کے یہاں بھی کسی حادثہ اور وبا کہ وقت فرض نمازوں میں دعاء قنوت پڑھنا جائز ہے۔
Top