مشکوٰۃ المصابیح - وتر کا بیان - حدیث نمبر 1260
قنوت کا بیان
لغوی طور پر قنوت کے کئی معنی ہیں۔ (١) طاعت کرنا (٢) نماز میں کھڑے ہونا (٣) اللہ تعالیٰ کے سامنے خاکساری کرنا، اسی طرح دعا کو بھی قنوت کہتے ہیں، اصطلاحا دعاء مخصوص کو کہتے ہیں جو یہاں مراد ہے، چناچہ شوافع کے یہاں دعاء قنوت اَللّٰھُمَّ اھْدِنٰی الخ ہے۔ حضرات حنفیہ کے نزدیک دعاء قنوت اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْتَعِیْنُکَ الخ ہے (دونوں دعائیں مکمل طور پر پچھلے باب میں نقل کی جا چکی ہیں) جسے حنفی علماء صحیح سند و طریق کے ساتھ طبرانی وغیرہ سے نقل کرتے ہیں۔ نیز محقق علامہ حضرت ابن ہمام (رح) نے ابوداؤد سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ (ایک روز) قبیلہ مضر کے لوگوں کے (ظلم و ستم اور ان کی دہشت و بربریت کے پیش نظر ان) کے لئے بد دعا فرما رہے تھے کہ حضرت جبرائیل تشریف لائے اور آپ ﷺ کو خاموش ہوجانے کا اشارہ کر کے فرمایا کہ یا محمد ﷺ ان اللہ لم یبعثک سبابا الا لعانا انما بعثک رحمۃ۔ اے محمد ﷺ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے برا کہنے والا اور لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ آپ ﷺ کو تو (دونوں جہان کے لئے) رحمت کا باعث بنا کر بھیجا گیا ہے۔ پھر انہوں نے یہ آیت پڑھی (لَيْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ) 3۔ ال عمران 128) (یعنی اس چیز میں آپ ﷺ کا کوئی دخل نہیں ہے) بعد ازاں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے رسول اللہ ﷺ کو یہ دعا اللھم انا نستعینک الخ سکھائی شیخ جلال الدین سیوطی نے بھی اپنی کتاب درمنثور میں اس دعا کو کچھ مختلف الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے۔
Top