مشکوٰۃ المصابیح - وتر کا بیان - حدیث نمبر 1252
وَعَنْ مَّالِکِ بَلَغَہ، اَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ عَنِ الْوِتْرِ اَوَاجِبٌ ھُوَ؟ فَقَالَ عَبْدُاﷲِ قَدْ اَوْتَرَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاَوْتَرَ الْمُسْلِمُوْنَ فَجَعَلَ الْرَّجُلُ یُرَدِّدُ عَلَیْہِ وَعَبْدُاﷲِ یَقُوْلُ اَوْتَرَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاَوْتَرَ الْمُسْلِمُوْنَ ۔ (رواہ فی الموطا)
نماز وتر واجب ہے یا سنت
اور حضرت امام مالک (رح) کے بارے میں منقول ہے کہ انہیں یہ بات پہنچی ہے کہ ایک آدمی نے حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے سوال کیا کہ وتر کی نماز واجب ہے (یا سنت ہے) حضرت عبداللہ ؓ نے (کوئی صریح جواب دینے کی بجائے) فرمایا کہ وتر کی نماز رسول اللہ ﷺ نے بھی پڑھی ہے اور دوسرے مسلمانوں نے بھی! وہ آدمی بار بار یہی سوال کرتا تھا اور حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ یہی کہے جاتے تھے کہ وتر کی نماز رسول اللہ ﷺ نے بھی پڑھی ہے اور دوسرے مسلمانوں نے بھی پڑھی ہے۔ موطا

تشریح
کسی سوال کے جواب دینے کا ایک بلیغ طریقہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی خاص مصلحت کی بنا پر مدلول (اصل جواب) کا ذکر نہ کیا جائے اور صرف دلیل بیان کردی جائے، چناچہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے جب ایک آدمی نے وتر کی نماز کے وجوب یا سنت کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے مدلول کے بجائے صرف دلیل پر اکتفا کیا گو ان کا مطلب یہ تھا کہ وتر کی نماز واجب ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کا مستقل طور پر بطریق مواظبت وتر کی نماز پڑھنا اور اہل اسلام کا اس پر متفق ہونا اس بات کی دلیل ہے۔ اب رہا یہ سوال کہ جب سائل حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ سے صریح جواب چاہنے کے لئے ان سے باربار سوال کرتا تھا تو انہوں نے صاف طریقہ سے یہ کیوں نہیں کہہ دیا کہ وتر کی نماز واجب ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے انداز بیان اور جواب کا یہ طریقہ احتیاط کے پیش نظر اختیار کیا کیونکہ انہوں نے اس سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ سے کوئی صریح بات نہیں سنی تھی اس لئے انہوں نے بھی صریح جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔
Top