مشکوٰۃ المصابیح - وتر کا بیان - حدیث نمبر 1240
وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ اَبِیْ قَیْسٍ قَالَ سَئَلْتُ عَائِشَۃَ بِکُمْ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یُوْتِرُ قَالَتْ کَانَ یُوْتِرُ بِاَرْبَعٍ وَّثلَاَثٍ وَسِتٍّ وَّثلَاَثٍ وَّثَمَانٍ وَّثَلَاثٍ وَّعَشْرٍ وَّثَلَاثٍ وَلَمْ یَکُنْ یُوْ تِرُ بِاَنْقَصَ مِنْ سَبْعٍ وَلَا بِاَکْثَرَ مِنْ ثلَاَثَ عَشْرَۃَ۔ (رواہ ابوداؤد)
نماز تہجد ووتر کی رکعتوں کی تعداد
اور حضرت عبداللہ بن ابی قیس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے پوچھا سرور کونین ﷺ کتنی رکعتوں کے ساتھ وتر پڑھتے تھے۔ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کبھی چار اور تین (یعنی سات) کبھی چھ اور تین (یعنی نو) رکعتوں کے ساتھ، کبھی آٹھ اور تین (یعنی گیارہ) رکعتوں کے ساتھ اور کبھی دس اور تین (یعنی تیرہ) رکعتوں کے ساتھ وتر پڑھتے تھے اور آپ ﷺ سات سے کم اور تیرہ سے زیادہ رکعتوں کے ساتھ کبھی وتر نہیں پڑھتے تھے۔ (ابوداؤد)

تشریح
چار اور تین رکعتوں کے ساتھ کا مطلب یہ ہے کہ چار رکعتیں تو تہجد کی ہوتی تھیں اور تین رکعتیں وتر کی، اس طرح مجموعی طور پر سات رکعتیں ہوگئی۔ گویا پہلی چار رکعتوں کو بھی مجازا وتر ہی میں شمار کیا اسی طرح چھ رکعتیں تہجد کی اور تین وتر کی ان کی مجموعی تعداد نو رکعتیں ہوئی، آٹھ رکعتیں تہجد کی اور تین رکعتیں وتر کی ان کی مجموعی تعداد گیارہ رکعت ہوئی اور دس نماز تہجد کی اور تین رکعتیں وتر کی، ان کی مجموعی تعداد تیرہ رکعتیں ہوئی۔ بہر حال یہ حدیث صراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہے کہ وتر کی ایک رکعت نہیں بلکہ تین رکعتیں ہیں۔ حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ﷺ نے کبھی بھی وتر کی نماز سات سے کم اور تیرہ سے زیادہ رکعت کے ساتھ نہیں پڑھی بلکہ مطلب یہ ہے کہ اکثر آپ ﷺ سات رکعتیں سے کم کے ساتھ وتر نہیں پڑھتے، چناچہ آپ ﷺ سے پانچ رکعتیں بھی ثابت ہیں۔ اسی طرح اکثر آپ ﷺ تیرہ رکعتوں سے زیادہ کے ساتھ وتر نہیں پڑھتے تھے چناچہ پندرہ رکعتیں بھی آپ ﷺ سے پڑھنی ثابت ہیں۔
Top