مشکوٰۃ المصابیح - نیکی و صلہ رحمی کا بیان - حدیث نمبر 4831
وعن ابن عمر أن رجلا أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله إني أصبت ذنبا عظيما فهل لي من توبة ؟ قال هل لك من أم ؟ قال لا . قال وهل لك من خالة ؟ . قال نعم . قال فبرها . رواه الترمذي
خالہ ماں کا درجہ رکھتی ہے
اور حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ یا رسول اللہ مجھ سے ایک بڑا گناہ صادر ہوگیا ہے میری توبہ کے لئے کیا چیز ہے یعنی کوئی ایسا عمل بتادیں جس کو اختیار کر کے میں اللہ کی رحمت کو اپنی طرف متوجہ کرا سکوں اور اپنا گناہ معاف کروا سکوں۔ حضور نے فرمایا کیا تمہاری ماں ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا تو کیا تمہاری خالہ ہے اس نے کہا ہاں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم اس کے ساتھ نیک سلوک کرو یعنی اس کی خدمت و اطاعت کرو اور اس کی دیکھ بھال رکھو نیز اپنی حثییت و اطاعت کے مطابق اس کی مالی امداد و اعانت کرتے رہو۔ (ترمذی)

تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ناطے داروں کے ساتھ حسن سلوک، گناہوں کے کفارہ کا ذریعہ ہے اگرچہ وہ گناہ کبیرہ ہی کیوں نہ ہو تاہم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو وحی کے ذریعہ بتایا گیا ہو کہ حسن سلوک کا کبیرہ گناہ کے کفارہ کا سبب بننا اس شخص کے ساتھ مخصوص ہے لہذا آنحضرت ﷺ نے اس سے فرما دیا کہ تم اپنی خالہ سے حسن سلوک کرو تمہارا گناہ بخش دیا جائے گا اور یا یہ کہ اس شخص سے جو گناہ صادر ہوا تھا وہ کبیرہ گناہ نہیں تھا بلکہ حقیقت میں صغیرہ گناہ تھا البتہ اس شخص نے اپنے مضبوط جذبہ ایمانی اور احتیاط وتقوی کی بنا پر اس گناہ کو ایک بڑا گناہ سمجھا اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ خالہ، ماں کا درجہ رکھتی ہے۔
Top