مشکوٰۃ المصابیح - نیکی و صلہ رحمی کا بیان - حدیث نمبر 4828
وعن أبي بكرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما من ذنب أحرى أن يعجل الله لصاحبه العقوبة في الدنيا مع مايدخر له في الآخرة من البغي وقطيعة الرحم . رواه الترمذي وأبو داود
بغاوت اور قطع رحم وہ گناہ ہیں جن کی وجہ سے دنیا میں عذاب ہوتا ہے۔
اور حضرت ابوبکرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کوئی گناہ اس بات کے زیادہ لائق نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارتکاب کرنے والے کو دنیا میں بھی اس کی سزا دیدے اور مرتکب کو آخرت میں بھی دینے کے لئے اس سزا کو اٹھا رکھے ہاں دو گناہ بیشک اس بات کے لائق ہیں کہ ایک تو امام وقت کے خلاف بغاوت کرنا اور دوسرے ناتا توڑنا۔ (ترمذی، ابوداؤد)

تشریح
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اپنے ملک کے سربراہ اور قانونی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا اور ناتا توڑنا یعنی اپنے اعزاء و قرباء کے ساتھ بدسلوکی اور ان کے حقوق کی ادائیگی سے اعرض کرنا بڑا سخت گناہ اور نہایت غمگین بات ہے چناچہ فرمایا گیا ہے کہ ان دونوں گناہوں کے مرتکب کو محض آخرت ہی میں عذاب نہیں دیا جائے گا بلکہ اللہ ان کو سزا دینے میں جلدی کرے گا بایں طور کہ ان کو دنیا میں بھی اپنے ان گناہوں کی سزا بھگتنی پڑے گی گویا ایسے لوگ نہ دنیا میں چین پاسکتے ہیں اور نہ آخرت میں یہاں بھی سزا پائیں گے خواہ اس کی صورت کچھ ہی ہو اور وہاں بھی عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے کیونکہ یہ دونوں گناہ اس طرح ہیں کہ ان کے اثرات صرف دینی زندگی کو نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ دنیا میں بھی برے نتائج مرتب کرتے ہیں چناچہ حکومت کے خلاف بغاوت برپا کرنے سے سارے ملک کا نظم ونسق درہم برہم ہوجاتا ہے پوری قوم سخت افراتفری اور مختلف مصائب و آلام میں مبتلا ہوجاتی ہے اور سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا کہ قومی اور ملی توانائی ناگہانی کا شکار ہوجاتی ہے جس سے دشمن غالب آجانے کا موقع ملتا ہے اور سی طرح ناتا توڑنے سے آپس میں نفرت و عداوت پیدا ہوتی ہے اور دلوں میں کدورت کو راہ مل جاتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اعزاء اور اقرباء جو باہم محبت و موانست کے ذریعہ ایک دوسرے کے دکھ دردوں میں شریک ہو کر ایک پر سکون بخش ماحول پیدا کرسکتے ہیں اور آپس کے میل جول کے سبب سے بڑی سے بڑی مصیبت اور سخت سے سخت حالات کو انگیز کرنے کی طاقت فراہم کرسکتے ہیں وہ باہمی لڑائی جھگڑے اور افتراق و انتشار کی وجہ سے سخت جسمانی و روحانی اذیت نا کیوں اور پریشانیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں لہذا ان گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں کو دنیا میں زیادہ ڈھیل نہیں دی جاتی بلکہ اللہ کی طرف سے ان کی سزا کا فیصلہ جلد صادر ہوجاتا ہے تاکہ وہ پہلے تو دنیا میں اپنے کئے کی سزا بھگت کر دوسروں کے لئے سامان عبرت بنیں اور پھر آخرت میں بھی عذاب میں مبتلا ہوں۔ یہ بات واضح ہے کہ دنیا میں سزا پانا اور آخرت میں بھی عذاب کا مستوجب ہونا محض ان دو گناہوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ہوسکتا ہے کہ کچھ اور گناہ بھی انہی کی طرح کے ہوں مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دونوں گناہ ان میں بدتر اور زیادہ ہیبت ناک ہیں۔
Top