مشکوٰۃ المصابیح - نکاح کا بیان - حدیث نمبر 3121
وعنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إذا خطب إليكم من ترضون دينه وخلقه فزوجوه إن لا تفعلوه تكن فتنة في الأرض وفساد عريض . رواه الترمذي
عورت کے ولی کے لئے ایک ضروری ہدایت
اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب تمہارے پاس کوئی شخص نکاح کا پیغام بھیجے اور تم اس شخص کی دینداری اور اس کے اخلاق سے مطمئن ہو تو اس کا پیغام منظور کر کے اس سے نکاح کردو اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین پر فتنہ اور بڑا فساد برپا ہوجائے گا ( ترمذی)

تشریح
یہ ارشاد گرامی دراصل عورتوں کے سرپرست اور ولیوں سے ایک خطاب اور ان کے لئے ایک ضروری ہدایت ہے کہ اگر کوئی دیندار اور اچھے اخلاق واطوار کا حامل شخص تمہاری بیٹی یا تمہاری بہن وغیرہ سے نکاح کا پیغام بھیجے تو منظور کرلو اور اس سے نکاح کردو اگر ایسا نہ کرو گے بلکہ ایسے شخص کے پیغام کو نظر انداز کر کے کسی مالدار یا ثروت دار شخص کے پیغام کی انتظار میں رہو گے جیسا کہ اکثر دینداروں کی عادت ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اکثر عورتیں بغیر خاوند کے بیٹھی رہ جائیں گی اور اکثر مرد بغیر بیوی کے پڑے رہیں گے اس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ بدکاری اور برائیوں کا عام چلن ہوجائے گا بلکہ ان عورتوں کے سرپرست اور ولی بڑی بری قسم کی عار و غیرت میں مبتلا ہوں گے پھر جو لوگ ان کو عار اور غیرت دلائیں گے وہ ان سے لڑنے جھگڑنے لگیں گے آخرکار اس برائی وفحاشی اور لڑائی جھگڑے سے ایک ہمہ گیر فتنہ و فساد کی شکل پیدا ہوجائے گی۔ طیبی کہتے ہیں کہ ایک طرح سے یہ حدیث حضرت امام مالک کی دلیل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ کفائت زوجین میں سے ایک دوسرے کا کفو ہونے کا لحاظ صرف دین کے وصف میں کیا جائے گا گویا ان کے نزدیک ایک دوسرے کا کفو صرف دین میں ہوسکتا ہے جبکہ علماء کی اکثریت کا مسلک یہ ہے کہ ان چاروں اوصاف میں ایک دوسرے کا کفو شریک ہونے کا لحاظ کیا جائے (١) دین حریت نسب پیشہ چناچہ کسی مسلمان عورت کا نکاح کافر سے نہ کیا جائے نہ کسی غیر معلوم النسب سے کیا جائے۔ اور کسی سودا گر یا اچھے پیشے والے کی بیٹی کا نکاح کسی حرام یا مکروہ پیشہ والے سے نہ کیا جائے۔ لیکن اس بارے میں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اگر کسی عورت کا ولی اور خود وہ عورت کسی غیرکفو والے سے نکاح کرنے پر راضی ہوجائے تو نکاح صحیح ہوجائے گا۔
Top