مشکوٰۃ المصابیح - نکاح کا بیان - حدیث نمبر 3119
وعن جابر : قال : كنا مع النبي صلى الله عليه و سلم في غزوة فلما قفلنا كنا قريبا من المدينة قلت : يا رسول الله إني حديث عهد بعرس قال : تزوجت ؟ قلت : نعم . قال : أبكر أم ثيب ؟ قلت : بل ثيب قال : فهلا بكرا تلاعبها وتلاعبك . فلما قدمنا لندخل فقال : امهلوا حتى ندخل ليلا أي عشاء لكي تمتشط الشعثة وتستحد المغيبة
اپنے نکاح کے لئے کنواری عورت کو ترجیح دو
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ ایک جہاد میں ہم نبی کریم ﷺ کے ہمراہ تھے چناچہ جب ہم ( جہاد سے) واپس ہوئے اور مدینہ کے قریب پہنچے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! میری نئی شادی ہوئی تھی ( کہ میں جہاد میں چلا گیا اب اگر حکم ہو تو میں آگے چلا جاؤں تاکہ اپنے گھر جلد سے جلد پہنچ سکوں) آپ ﷺ نے فرمایا تم نے نکاح کیا ہے میں نے عرض کیا کہ ہاں، آپ ﷺ نے پوچھا بیوی کنواری تھی یا بیوہ تھی؟ میں نے عرض کیا کہ بیوہ تھی، آپ ﷺ نے فرمایا کہ تو تم نے کنواری سے کیوں نکاح نہیں کیا؟ تاکہ تم اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی پھر جب ہم مدینہ پہنچ گئے اور ہم سب نے اپنے اپنے گھروں میں جانے کا ارادہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ابھی ٹہر جاؤ ہم رات میں (یعنی شام کے وقت) گھروں میں داخل ہوں گے تاکہ جس عورت کے بال پراگندہ ہوں وہ کنگھی چوٹی کرلے اور وہ عورت جس کا خاوند موجود نہیں تھا ( بلکہ ہمارے ساتھ جہاد میں گیا تھا) اپنے زائد بال صاف کرلے (بخاری ومسلم)

تشریح
تم اس کے ساتھ کھیلتے الخ، سے آپ کی بےتکلفی اور کمال الفت ورغبت مراد ہے مطلب یہ ہے کہ کنواری عورت سے نکاح کرنے میں آپس کی زندگی زیادہ الفت ورغبت کے ساتھ گزرتی ہے اور بےتکلفی اور چاہت زیادہ ہوتی ہے اس کے برخلاف بیوہ عورت جب کسی دوسرے کی زوجیت میں آتی ہے چونکہ اس کا دل پہلے خاوند کی یاد کی کسک محسوس کرتا ہے دوسرے یہ کہ اگر رہن سہن اور میل ملاپ میں اس دوسرے خاوند کو اپنے پہلے خاوند کی طرح نہیں پاتی تو اس کی طبیعت اچاٹ ہوجاتی ہے ان باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اتنی زیادہ بےتکلف اور خوش مزاج ثابت نہیں ہوتی جتنی ایک کنواری عورت ہوتی ہے۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اپنے گھروں میں جانے میں جلدی نہ کرو بلکہ کچھ دیر توقف کرو تاکہ تمہاری بیویاں رات سے پہلے اپنا بناؤ سنگھار کر کے تمہاری مجامعت کے لئے اپنے آپ کو تیار کرلیں اور جب تم رات میں ان کے پاس پہنچو تو تمہیں کسی قسم کا کوئی تکدر اور کوئی بےلطفی نہ ہو۔ اس موقع پر یہ خلجان پیدا ہوسکتا ہے کہ دوسری حدیثوں میں تو اپنے گھر واپس آنیوالے مسافر کو رات کے وقت گھر میں داخل ہونے سے منع فرمایا گیا ہے جب کہ یہاں رات کے وقت گھروں میں داخل ہونے کو فرمایا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ گھر لوٹنے والے مسافر کو رات کے وقت گھر میں داخل ہونے کی جو ممانعت ہے اس کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ بغیر اطلاع کے یکایک گھر میں چلا جائے اور اگر گھر والوں کو پہلے سے اطلاع ہو جیسا کہ اس موقع پر ہوا تو اس صورت میں رات کے وقت اپنے گھر میں داخل ہونا ممنوع نہیں ہوگا۔
Top