مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 972
وَعَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا اَحْدَثَ اَحَدُکُمْ وَقَدْ جَلَسَ فِیْ اٰخِرِصَلَاتِہٖ قَبْلَ اَنْ یُسَلِّمَ فَقَدْ جَازَتْ صَلٰوتُہُ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ اِسْنَادُہُ لَیْسَ بِالْقَوِیِّ وَقَدِ اضْطَرَبُوْا فِی اَسْنَادِہٖ۔
نماز میں وضو ٹوٹ جانے کا مسئلہ
اور حضرت عبدا اللہ ابن عمر ؓ راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا اگر تم میں سے کسی کا وضو اس وقت ٹوٹے جب کہ وہ اپنی نماز کے آخری قعدے میں (بمقدار تشہد بیٹھ چکا) ہو اور سلام نہ پھیرا ہو تو اس کی نماز پوری ہوگئی۔ ترمذی نے اسے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ ایک ایسی حدیث ہے جس کی اسناد مضبوط نہیں ہے اور انہوں نے اس کی اسناد میں اضطراب ہونا بیان کیا ہے۔

تشریح
حدیث کی مذکورہ صورت میں امام ابوحنیفہ (رح) کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی آدمی قصدًا وضو توڑے گا تو اس کی نماز پوری ہوجائے گی کیونکہ اس کے نزدیک نمازی کا اپنے کسی بھی فعل کے ذریعے نماز سے نکلنا فرض ہے یعنی اگر کوئی آدمی نماز کے پورے ارکان ادا کرنے کے بعد نماز کو مکمل طور ختم کرنا چاہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ کوئی ایسا فعل اختیار کرے جو نماز کے خاتمے کا ذریعہ بن جائے جیسا کہ سلام پھیرنا۔ چنانچہ اتنی بات سمجھ لیجئے کہ امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک نماز کو محض سلام کے ذریعے ہی ختم کرنا فرض نہیں ہے بلکہ اگر کوئی آدمی نماز کے ارکان کے بعد بجائے سلام پھیرنے کے کوئی ایسا دوسرا فعل اختیار کرے جو نماز کے منافی ہو تو اس کی نماز پوری ہوجائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ امام اعظم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی آخری قعدے میں تشہد وغیرہ پڑھنے کے بعد قصدا اپنا وضو توڑ ڈالے تو اس کی نماز پوری ہوجائے گی کیونکہ اس نے نماز کے ارکان پورے کرنے کے بعد ایسا طریقہ اختیار کیا ہے جو نماز کے خاتمہ کا ذریعہ بن گیا ہے اگرچہ وہ ترک واجب کا گنہ گاہ ہوگا مگر فرض ادا ہوجائے گا کیونکہ امام اعظم کے نزدیک سلام کے ذریعہ نماز کو پورا کرنا واجب ہے۔ صاحبین یعنی امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک قصدا وضو توڑنے کی شرط نہیں ہے بلکہ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ مذکورہ بالا صورت میں کسی کا وضو خود بخود ٹوٹ جائے تو اس کی نماز تمام ہوجائے گی یعنی فرض پورا ہوجائے گا۔ لہٰذا امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک یہ حدیث قصدا وضو توڑنے پر محمول ہے اور صاحبین کے نزدیک مطلق ہے خواہ کوئی قصدا وضو توڑ دے یا اس کا وضو خود بخود ٹوٹ جائے۔ چناچہ یہ حدیث حنفیہ خصوصا صاحبین کے مسلک کی موید ہے بخلاف حضرات امام شافعی (رح) کے کہ ان کے نزدیک نماز کو صرف سلام کے ذریعے پورا کرنا فرض ہے۔ حدیث مضطرب وہ حدیث کہلاتی ہے جو مختلف الفاظ اور مختلف وجوہ سے نقل کی گئی ہو اور یہ چیز حدیث کے ضعف کی علامت ہوتی ہے کیونکہ حدیث کا اس طرح مروی ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ راویان حدیث کو حدیث پوری طرح یاد نہیں رہی۔ ملا علی قاری (رح) نے اس حدیث کو مضطرب و ضعیف تسلیم نہیں کیا ہے بلکہ انہوں نے کہا ہے کہ یہ حدیث متعدد طرق سے مروی ہے جن کو امام طحاوی (رح) نے نقل کیا ہے اور اصول حدیث میں یہ بات مسلم ہے کہ کسی حدیث ضعیف کا متعدد طرق سے مروی ہونا اسے حسن کے قریب کردیتا ہے۔
Top