مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 954
عَنْ عَبْدِاﷲِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِیَ اﷲُ تَعَالیٰ عَنْہُ قَالَ کُنَّا نُسَلِّمُ عَلَی النَّبِیِّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَھُوَ فِی الصَّلٰوۃِ قَبْلَ اَنْ نَاتِیَ اَرْضَ الْحَبَشَۃِ فَیَرُدُّ عَلَیْنَا فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ اَرْضِ الْحَبَشَۃِ اَتَیْتُہ، فَوَجَدْتُہ، یُصَلِّی فَسَلَّمْتُ عَلَیْہِ فَلَمْ یَرُدَّ عَلَیَّ حَتّٰی اِذَا قَضٰی صَلٰوتَہ، قَالَ اِنَّ اﷲَ یُحْدِثُ مِنْ اَمْرِہٖ مَا یَشَاءُ وَاِنَّ مِمَّا اَحْدَثَ اَنْ لاَّ تَتَکَلَّمُوْا فِی الصَّلٰوۃِ فَرَدَ عَلَیَّ السَّلَامَ وَقَالَ اِنَّمَا الصَّلٰوۃُ لِقَرَاءَ ۃِ الْقُرْاٰنِ وَذِکْرِ اﷲِ فَاِذَا کُنْتَ فِیْھَا فَلْیَکُنْ ذَالِکَ شَانَکَ۔ (رواہ ابوداؤد)
نماز میں سلام کا جواب نہیں دینا چاہیے
حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ ملک حبشہ سے واپسی سے قبل ہم سرور کونین ﷺ کو جب کہ آپ ﷺ نماز میں ہوتے تھے سلام کرتے تھے اور آپ ﷺ ہمارے سلام کا جواب دے دیا کرتے تھے پھر جب ہم ملک حبشہ سے واپس ہوئے تو میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت میں نے آپ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے پایا میں نے آپ ﷺ کو سلام کیا مگر آپ ﷺ نے جواب نہیں دیا جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوگئے تو فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے جس حکم کو چاہتا ہے ظاہر کرتا ہے چناچہ اللہ تعالیٰ نے اب یہ حکم ظاہر کیا ہے کہ نماز میں بات چیت نہ کیا کرو پھر آپ ﷺ نے میرے سلام کا جواب دیا اور اس کے بعد فرمایا نماز صرف قرآن پڑھنے اور اللہ کا ذکر کرنے کے لئے ہے لہٰذا جب تم نماز کی حالت میں ہو تو تمہارا بھی یہی حال ہونا چاہئے یعنی صرف قرآن پڑھو اور اللہ کا ذکر کرو۔ (ابوداؤد)

تشریح
ابن ملک (رح) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نماز سے فراغت کے بعد سلام کا جواب دینا مستحب ہے۔ اسی طرح اگر کوئی استنجاء کرتا ہوا ہو یا قرآن پڑھتا ہوا ہو اور کوئی دوسرا آدمی اسی حالت میں اسے سلام کرے تو اس کے لئے یہ مستحب ہے کہ وہ ان امور سے فراغت کے بعد سلام کا جواب دے۔
Top