مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 952
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ صقَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّ عِفْرِےْتًا مِّنَ الْجِنِّ تَفَلَّتِ الْبَارِحَۃَ لِےَقْطَعَ عَلَیَّ صَلٰوتِیْ فَاَمْکَنَنِیَ اللّٰہُ مِنْہُ فَاَخَذْتُہُ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَرْبِطَہُ عَلٰی سَارِےَۃٍ مِّنْ سَوَارِی الْمَسْجِدِ حَتّٰی تَنْظُرُوْا اِلَےْہِ کُلُّکُمْ فَذَکَرْتُ دَعْوَۃَ اَخِیْ سُلَےْمَانَ رَبِّ ھَبْ لِیْ مُلَکًا لَّا ےَنْبَغِیْ لِاَحَدٍ مِّنْ بَعْدِیْ فَرَدَدْتُّہُ خَاسِئًا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
رسول اللہ ﷺ کا جن کے ساتھ ایک واقعہ
اور حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ (ایک روز) سرور کونین ﷺ نے فرمایا آج رات جنوں میں سے ایک دیو ( یعنی ایک سرکش شیطان) چھوٹ کر میرے پاس آیا تاکہ میری نماز میں خلل ڈالے مگر اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اس پر حاوی کردیا چناچہ میں نے اسے پکڑ لیا اور چاہا کہ مسجد (نبوی) کے ستونوں میں سے کسی ستون سے اسے باندھ دوں تاکہ تم سب لوگ اسے دیکھ لو پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان (علیہ السلام) کی یہ دعا یاد آگئی آیت (رَبِّ اغْفِرْ لِيْ وَهَبْ لِيْ مُلْكًا لَّا يَنْ بَغِيْ لِاَحَدٍ مِّنْ بَعْدِيْ ) 38۔ ص 35) اے پروردگار مجھے ایسی بادشاہت عطا فرما جو میرے بعد اور کسی کے لئے مناسب نہ ہو چناچہ میں نے اسے ذلیل بنا کر چھوڑ دیا۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی دعا میں بادشاہت سے مراد جنات و شیاطین کو مسخر کرنا اور ان پر تصرف حاصل کرنا ہے چونکہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا اپنے لئے کی تھی اور یہ مرتبہ صرف اپنے لئے ہی چاہا تھا اس لئے رسول اللہ ﷺ نے یہ نہیں چاہا کہ اس شیطان کو مسجد نبوی کے ستون سے باندھ کر ایسا طریقہ اختیار کریں کہ جس سے حضرت سلیمان کی اس خصوصیت پر کچھ اثر پڑے اور اپنے تصرف کا اظہار ہو ورنہ تو رسول اللہ ﷺ کو خود بھی یہ خصوصیت اور مرتبہ اور شیاطین و جنات پر تصرف کی قدرت حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے زیادہ حاصل تھی۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ شیطان کو چھونا نماز کو نہیں توڑتا۔
Top