مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 951
وَعَنْ اَبِیْ سَعِےْدٍ صقَالَ قَالَ رَسُوْل ُاللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا تَثَآءَ بَ اَحَدُکُمْ فِی الصَّلٰوۃ فَلْےَکْظِمْ مَا اسْتَطَاعَ فَاِنَّ الشَّےْطَانَ ےَدْخُلُ رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَفِیْ رَوَاےَۃٍ لِلْبُخَارِیِّ عَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَ قَالَ اِذَا تَثَآءَ بَ اَحَدُکُمْ فِی الصَّلٰوۃِ فَلْےَکْظِمْ مَا اسْتَطَاعَ وَلَا ےَقُلْ ھَا فَاِنَّمَا ذَالِکُمْ مِّنَ الشَّےْطَانِ ےَضْحَکُ مِنْہُ۔
نماز میں جمائی کے وقت منہ بند کرلینا چاہیے
اور حضرت ابوسعید خدری ؓ راوی ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو نماز میں جمائی آئے تو اسے چاہئے کہ وہ حتی الامکان اسے روکے کیونکہ (جمائی کے وقت) شیطان (منہ میں) گھس جاتا ہے۔ (صحیح مسلم) اور بخاری کی روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ جب تم میں سے کسی کو نماز میں جمائی آئے تو حتی الامکان اسے روکنا چاہئے اور اور ہا نہ کہے (جیسا کہ جمائی کے وقت بےاختیار منہ سے یہ لفظ نکل جاتا ہے) اس لئے کہ یہ شیطان کی طرف سے ہے اور وہ اس سے ہنستا ہے۔

تشریح
پیٹ بھر نے حو اس کی کدورت اور بدن کے ثقل کی وجہ سے جمائی آتی ہے اور یہ عبادت میں کسل و سستی کا باعث بنتی ہے اس لئے اس کی نسبت شیطان کی طرف کی گئی ہے کہ جمائی لیتے وقت شیطان منہ میں گھس جاتا ہے یعنی ایسی حالت میں اس کے لئے نمازی کو بہکانے اور عبادت سے روکنے کا موقعہ بہت اچھی طرح میسر آتا ہے اور اس کے ہنسنے سے مراد یہ ہے کہ وہ ایسی حالت میں نمازی کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا ہے کیونکہ اس سے عبادت میں کسل اور سستی پیدا ہوجاتی ہے۔ جو شیطان کا عین منشاء ہے۔ لہٰذا فرمایا گیا ہے کہ نماز میں جب کسی کو جمائی آئے تو اسے چاہیے کہ حتی الامکان جمائی کو روکے اور ایسی صورت میں منہ بند کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہونٹ بھینچ لئے جائیں اور نچلا ہونٹ دانتوں میں پکڑ لیا جائے یا جب جمائی آئے تو بائیں ہاتھ کی پشت منہ پر رکھ لی جائے۔ بعض فرماتے ہیں کہ جمائی روکنے کی سب سے بہتر ترکیب یہ ہے کہ جب جمائی آئے تو فورًا دل میں یہ خیال پیدا کرلینا چاہئے کہ رسول اللہ ﷺ کو کبھی جمائی نہیں آئی۔ محض اس خیال میں جمائی رک جائے گی کہا جاتا ہے کہ یہ طریقہ مجرب ہے۔
Top