مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 938
وَعَنِ الْاَزْرِقِ بْنِ قَیْسٍ قَالَ صَلَّے بِنَا اِمَامٌ لَنَا یُکْنٰی اَبَارِمْثَۃَ قَالَ صَلَّیْتُ ھٰذِہِ الصَّلَاۃَ اَوْ مِثْلَ ھْذِہٖ الصَّلَاۃِ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ وَکَانَ اَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ رَضِیَ اﷲُ عَنْھُمَا یَقُوْمَانِ فِی الصَّفِّ الْمُقَدَّم عَنْ یمِیْنِہٖ وَکَانَ رَجُلٌ قَدْ شَھِدَ التَّکْبِیْرَۃَ الْاُوْلٰی مِنَ الصَّلَاۃِ فَصَلَّی نَبِیُّ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنْ یَمِیْنِہٖ وَعَنْ یَسَارِہٖ حَتّٰی رَاَیْنَا بَیَاضَ خَدَّیْہٖ ثُمَّ انْفَتَلَ کَاِنْفِتَالِ اِبٖی رِمْثَۃَ یَعْنِی نَفْسَہُ فَقَامَ الرَّجُلُ الَّذِیْ اَدْرَکَ مَعَہُ التَّکْبِیْرَۃَ الْاُوْلٰی مِنَ الصَّلَاۃِ یَشْفَعُ فَوَثَبَ عُمَرُ فَاَخَذَ بِمَنْکِبَیْہِ فَھَزَّہ، ثُمَّ قَالَ اِجْلِسِ فَاِنَّہُ لَنْ یَھْلِکَ اَھْلُ الْکِتَابِ اِلَّا اَنَّہُ لَمْ یَکُنْ بَیْنَ صَلَاتِھِمْ فَصْلٌ فَرَفَعَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم بَصَرَہُ فَقَالَ اَصَابَ اﷲُ بِکَ یَا ابْنَ الْخَطَّابِ۔ (رواہ ابودا ؤد)
دو نمازوں کے درمیان وقفہ کرنا چاہیے
اور حضرت ازرق ابن قیس ؓ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) ہمارے امام نے کہ جن کی کنیت ابورمثہ تھی ہمیں نماز پڑھائی اور (نماز کے بعد) انہوں نے فرمایا کہ میں نے (ایک روز) یہ نماز یا اس کی مانند نماز رحمت عالم ﷺ کے ہمراہ پڑھی، حضرت ابورمثہ کہتے تھے کہ (اس نماز میں) حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر ؓ ( بھی) رسول اللہ ﷺ کی دائیں طرف پہلی صف میں کھڑے تھے، ایک آدمی (پیچھے سے آکر) نماز کی تکبیر اولی میں شریک ہوا، رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھی اور سلام ( کے وقت آپ ﷺ نے اپنے چہرہ مبارک کو اتنا) پھیرا کہ ہم نے آپ ﷺ کے مبارک رخساروں کی سفیدی دیکھ لی، پھر آپ ﷺ ابورمثہ کی یعنی میری طرف پھر کر بیٹھ گئے وہ آدمی جو تکبیر اولی میں شریک تھا کھڑا ہوگیا اور دو رکعت نماز پڑھنے لگا، حضرت عمر ؓ (یہ دیکھ کر) فورًا اٹھے اور اس آدمی کے دونوں کندھے پکڑ کر ہلائے اور فرمایا کہ بیٹھ جاؤ! کیونکہ اہل کتاب (یعنی یہو و نصاری) اسی لئے ہلاکت کی وادی میں جاگرے کہ اپنی نمازوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کرتے تھے، (حضرت عمر ؓ کی یہ بات سن کر) رسول اللہ ﷺ نے نظر مبارک اوپر اٹھائی اور فرمایا کہ اے خطاب کے بیٹے! اللہ نے تمہیں راہ حق پر پہنچایا (یعنی تم نے سچ کہا)۔ (ابوداؤد)

تشریح
ابتداء حدیث میں حضرت ابورمثہ نے اپنے قول یہ نماز سے اس نماز کی طرف اشارہ کیا تھا جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ پڑھی تھی اور وہ ظہر یا عصر کی نماز تھی۔ الفاظ او مثل ھذہ الصلوۃ (یا اس کی مانند نماز) میں حرف اور اوی کے شک کو ظاہر کر رہا ہے، یعنی اس روایت کے راوی کو شک ہے کہ حضرت ابورمثہ نے ہذہ الصلوٰۃ فرمایا تھا یا مثل ہذہ الصلوۃ۔ فرمایا گیا ہے کہ ایک آدمی (پیچھے سے آکر) نماز کی تکبیر اولی میں شریک ہوا یہاں تکبیر اولی کی قید اس مقصد کے تحت لگائی گئی ہے تاکہ یہ ظاہر ہوجائے کہ وہ آدمی مسبوق نہیں تھا کہ اپنی بقیہ نماز پوری کرنے کے لئے سلام کے بعد اٹھا ہو بلکہ وہ جماعت کے ساتھ پہلی ہی رکعت میں شامل ہوگیا تھا اور وہ سلام کے بعد سنت مؤ کدہ پڑھنے کے لئے اٹھ گیا تھا۔ فرق سے مراد یا تو سلام پھیر نے کے ساتھ فرق کرنا ہے یا جگہ بدل کر فرق کرنا مراد ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی ایک حدیث میں منقول ہے کہ تم میں سے جو آدمی نماز اداء کرتا ہے اسے کیا دشواری ہے کہ وہ آگے بڑھ جائے یا پیچھے ہٹ جائے یا دائیں طرف ہٹ کر کھڑا ہوجائے (یعنی ایک نماز پڑھ کر دوسری نماز پڑھنے کے لئے پہلی جگہ سے ہٹ جانا چاہئے) یا گفتگو کرنے اور مسجد سے نکلنے کے ساتھ فرق کرنا مراد ہے جیسا کہ مسلم کی ایک روایت میں حضرت سائب سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا ہمیں سرکار دو عالم ﷺ نے حکم فرمایا تھا کہ ہم (دو نمازوں کے درمیان وصل نہ کریں تا وقتیکہ کوئی گفتگو کریں یا باہر نکلیں اور اس طرح دونوں نمازوں کے درمیان وقفہ کریں۔ اس حدیث کو مصنف کتاب نے اس باب یعنی باب الذکر بعد الصلوٰۃ میں ذکر کر کے اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ فرق سے مراد نماز فرض ہے کے بعد ذکر کا ترک کرنا ہے یعنی فرض نماز کے بعد چاہے کہ ذکر کیا جائے جو کہ (اس موقع کے لئے دعاؤں کی شکل میں) احادیث میں مذکور ہے۔ اس کے بعد اٹھ کر سنتیں پڑھی جائیں۔ نیز یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز فرض کے ساتھ نفل کو ملانا نہیں چاہیے یعنی دونوں نمازوں کے درمیان اتنا توقف کرنا چاہئے کہ دونوں میں کوئی اشتباہ نہ ہو۔
Top