مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 931
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَےْرَۃَص قَالَ اِنَّ فُقَرَآءَ الْمُھَاجِرِےْنَ اَتَوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالُوْا قَدْ ذَھَبَ اَھْلُ الدُّثُوْرِ بِالدَّرَجَاتِ الْعُلٰی وَالنَّعِےْمِ الْمُقِےْمِ فَقَالَ وَمَا ذَاکَ قَالُوْا ےُصَلُّوْنَ کَمَا نُصَلِّیْ وَےَصُوْمُوْنَ کَمَا نَصُوْمُ وَےَتَصَدَّقُوْنَ وَلَا نَتَصَدَّقُ وَےُعْتِقُوْنَ وَلَا نُعْتِقُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلماَفَلَا اُعَلِّمُکُمْ شَےْئًا تُدْرِکُوْنَ بِہٖ مَنْ سَبَقَکُمْ وَتَسْبِقُوْنَ بِہٖ مَنْ بَعْدَکُمْ وَلَا ےَکُوْنُ اَحَدٌ اَفْضَلَ مِنْکُمْ اِلَّا مَنْ صَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعْتُمْ قَالُوْا بَلٰی ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ تُسَبِّحُوْنَ وَتُکَبِّرُوْنَ وَتَحْمَدُوْنَ دُبُرَ کُلِّ صَلٰوۃٍ ثَلٰثًا وَّثَلَثِےْنَ مَرَّۃً قَالَ اَبُوْ صَالِحٍ فَرَجَعَ فُقَرَآءُ الْمُھَاجِرِےْنَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالُوْا سَمِعَ اِخْوَانُنَا اَھْلُ الْاَمْوَالِ بِمَا فَعَلْنَا فَفَعَلُوْا مِثْلَہُ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ ےُؤْتِےْہِ مَنْ ےَّشَآءُ مُتَّفَقٌ عَلَےْہِ وَلَےْسَ قُوْلُ اَبِیْ صَالِحٍ اِلٰی اٰخِرِہٖ اِلَّا عِنْدَ مُسْلِمٍ وَفِیْ رِوَاےَۃٍ لِلْبُخَارِیِّ تُسَبِّحُوْنَ فِیْ دُبُرِ کُلِّ صَلٰوۃٍ عَشْرًا وَّتَحْمَدُوْنَ عَشْرًا بَدَلَ ثَلٰثًا وَّثَلٰثِےْنَ۔
نماز کے بعد کی تسبیح اور اس کی فضیلت
اور حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ (ایک دن فقراء مہاجرین رحمت عالم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! دولت مند لوگ بلند درجات (یعنی ثواب، قرب الہٰی اور رضائے حق) اور دائمی نعمت) یعنی بہشت کی نعمت کو حاصل کرنے میں ہم سے سبقت) لے گئے (یعنی وہ اپنے مال و دولت کی وجہ سے بڑا ثواب حاصل کرتے ہیں اور بہشت کی نعمتوں کے مستحق ہوتے ہیں اور ہم تو اپنی غربت و افلاس کی وجہ سے بلندی درجات میں ان سے پیچھے رہ جاتے ہیں) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا یہ کیسے؟ انہوں نے عرض کیا وہ اسی طرح نماز پڑھتے ہیں جس طرح ہم پڑھتے ہیں اور وہ اسی طرح روزہ رکھتے ہیں جس طرح ہم رکھتے ہیں (ان اعمال میں تو وہ اور ہم برابر ہیں لیکن مال و زر کی وجہ سے) وہ صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور) غربت و افلاس کی وجہ سے) ہم صدقہ و خیرات کر نہیں سکتے، وہ غلام آزاد کرتے ہیں ہم غلام آزاد نہیں کرسکتے) (اس طرح وہ ان اعمال کے ثواب کے حق دار ہوجاتے ہیں اور ہم محروم رہتے ہیں (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کو ایسی بات نہ بتادوں کہ اس پر عمل کر کے تم ان لوگوں کے درجات کو پہنچ جاؤ جو تم سے پہلے اسلام لا چکے ہیں اور ان لوگوں کے مرتبے سے بڑھ جاؤ جو تمہارے بعد کے ہیں (یعنی تمہارے بعد اسلام لائے ہیں یا تمہارے بعد پیدا ہوں گے) اور (مال دار لوگوں میں سے) کوئی آدمی تم سے بہتر نہ ہوگا بجز اس آدمی کے جو تم ہی جیسا عمل کرے (یعنی اگر مالدار لوگوں نے میری بتائی ہوئی بات پر تمہاری طرح علم کیا تو پھر مرتبہ کے اعتبار سے وہی تم سے بہتر ہوں گے) فقراء نے عرض کیا یا رسول اللہ! بہتر ہے، فرمائیے (وہ کیا بات ہے؟ ) آپ ﷺ نے فرمایا تم لوگ ہر نماز کے بعد سبحان اللہ اللہ اکبر اور الحمد للہ تینتیس مرتبہ پڑھ لیا کرو۔ (حدیث کے ایک راوی) ابوصالح فرماتے ہیں کہ (کچھ دنوں کے بعد) فقراء مہاجرین (پھر) رسول اللہ ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! ہمارے دولت مند بھائیوں نے ہمارے عمل کا حال سنا اور وہ بھی وہی کرنے لگے جو ہم کرتے ہیں (اس طرح پھر وہی لوگ ہم سے افضل ہوئے) آپ ﷺ نے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) اور روایت کے آخری الفاظ جو ابوصالح کا قول ہے صرف صحیح مسلم ہی نے نقل کئے ہیں نیز صحیح البخاری کی ایک روایت میں تینتیس مرتبہ پڑھنے کے بجائے یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد دس دس مرتبہ سبحان اللہ، الحمد اللہ اور اللہ اکبر پڑھ لیا کرو۔

تشریح
پہلی روایت میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ ہر نماز کے بعد سبحان اللہ، اللہ اکبر اور الحمد اللہ تینتیس مرتبہ پڑھو تو اس میں دو احتمال ہیں اول تو یہ کہ ان تینوں کلمات کو مجموعی طور پر تینتیس تینتیس مرتبہ پڑھا جائے چناچہ مشائخ کا عمل اسی پر ہے اور یہی افضل بھی اور یہ کہ اس کی صراحت بھی بعض روایات میں تو موجود ہے۔ دوم یہ کہ ان تینوں کلمات کو ملا کر تینتیس مرتبہ پڑھا جائے، اس طرح ان میں سے ہر ایک کو بھی تینتینس مرتبہ پڑھنا ہوجائے گا۔ شکر کرنے والا امیر صبر کرنے والے غریب سے افضل ہے حدیث کے آخری لفظ ذلک فضل اللہ الخ ( اس دارالفناء میں جنتے ازم پیدا ہوئے وہ فانی ہیں صحیح اور باقی رہنے والی بات یہی ہے کہ انسانی جدوجہد اور تدابیر تقدیر الہٰی سے پابستہ زنجیر ہیں) کا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ نے دولت مند لوگوں کو تم پر فضیلت دی ہے تو یہ محض اس کا فضل و کرم ہے کہ وہ جسے چاہتا ہے اپنے فضل و کرم سے نواز کر اس کے قدموں میں مال و دولت کے ڈھیر ڈال دیتا ہے لہٰذا تمہیں چاہیے کہ اس معاملے میں صبر کا دامن پکڑے رہو اور تقدیر الہٰی پر راضی رہو کہ اس نے بعض بندوں کو بعض بندوں پر فضیلت و بزرگی عطا فرما دی ہے۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ شکر کرنے والا دولت مند صبر کرنے والے غریب سے افضل ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی اتنی بات بھی ہے کہ دولت مند اپنے مال و دولت کے معاملے میں مختلف قسم کے گناہ کے خوف سے خالی نہیں ہوتا جب کہ فقیر و غریب ان گناہوں کے خوف سے جو مال و دولت کی بناء پر صادر ہوتے ہیں امن میں رہتا ہے۔ امام غزالی (رح) احیاء العلوم میں فرماتے ہیں کہ علماء کرام نے اس مسئلے میں اختلاف کیا ہے چناچہ حضرت جنید بغدادی (رح) اور دیگر اکثر اہل اللہ فضیلت فقر کے قائل ہیں اور ابن عطاء کا قول ہے کہ شاکر دولت مند جو دولت کا حق ادا کرتا ہو صابر غریب سے افضل ہے۔
Top