مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 924
نماز کے بعد کے ذکر کا بیان
اس باب کی تحت وہ احادیث ذکر کی جائیں گی جن سے نماز کے بعد دعا اور دیگر اور اوارد وظائف کے پڑھنے کی اہمیت اور فضیلت ظاہر ہوتی ہے، یہاں ذکر کا لفظ عام ہے جو دعا اور اور اوارد وظائف سب پر حاوی ہے۔ اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ جن فرض نمازوں کے بعد سنتیں پڑھی جاتی ہیں ان کے بعد نمازی دعا اور اور اوراد وظائف کے لئے کتنی دیر تک بیٹھ سکتا ہے، چناچہ در مختار میں لکھا ہے کہ فرض نماز پڑھ لینے کے بعد سنتوں کے پڑھنے میں تاخیر کرنا مکروہ ہے البتہ اللھم انت السلام (آخر تک) کے بقدر دعا وغیرہ پڑھنے کے لئے کچھ دیر بیٹھنا ثابت ہے۔ علامہ حلوانی (رح) کا قول یہ ہے کہ اوراد وظائف پڑھنے کی غرض سے فرض و سنتوں کے درمیان وقفہ میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اسی قول کو کمال نے بھی اختیار کیا ہے۔ علامہ حلبی نے ان دونوں اقوال میں تطبیق یوں پیدا کی ہے کہ اگر یہاں مکروہ سے مراد مکروہ تحریمی نہ لیا جائے بلکہ مکروہ تنزیہی مراد لیا جائے تو ان دونوں اقوال میں کوئی اختلاف باقی نہیں رہے گا کیونکہ پہلے قول کا مطلب پھر یہ ہوگا کہ اور اوراد وظائف پڑھنے کے لئے سنتوں کے پڑھنے میں تاخیر کرنا کوئی گناہ کی بات نہیں ہے البتہ مکروہ تنزیہی ہے یعنی اگر تاخیر نہ کی جائے تو بہتر ہوگا۔ اسی طرح علامہ حلوانی کے قول کا مطلب یہ ہوگا کہ فرض نماز پڑھنے کے بعد اوارد وظائف پڑھنے کے لئے سنتوں میں تاخیر کرنے میں اگرچہ کوئی مضائقہ نہیں ہے، لیکن مناسب یہی ہے کہ تاخیر نہ کی جائے، اس طرح یہ دونوں قول اپنی اپنی جگہ صحیح رہے اور دونوں میں کوئی تضاد بھی باقی نہیں رہا۔ صاحب درمختار کے ایک قول کا مفہوم یہ ہے کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فرض و سنت کے درمیان دعا اور اور اوارد پڑھے جائیں تو تعارض دور ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد موصوف فرماتے ہیں کہ مستحب یہ ہے کہ نماز کے بعد ( نمازوں میں سنتیں نہیں پڑھی جاتیں۔ ان میں فرض کے بعد اور جن کے بعد سنتیں پڑھی جاتی ہیں ان میں سنتوں کے بعد یہ اور اوارد پڑھے جائیں ١٢)۔ تین مرتبہ استغفر اللہ پڑھا جائے، آیتہ الکرسی اور معوذات (یعنی سورت قل ہو اللہ قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس) پڑھی جائے اور سبحان اللہ، الحمد اللہ اور اللہ اکبر تینتیس تینتیس مرتبہ پڑھے جائیں اور پھر ایک مرتبہ تحلیل (لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ الخ) پڑھ کر سو کے عدد کو پورا کیا جائے پھر اس کے بعد دعا مانگی جائے اور دعا کو اس جملے پر ختم کیا جائے سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون وسلام علی المرسلین والحمد للہ رب العلمین۔ جماعت ختم ہوجانے کے بعد جب سنتیں پڑھی جائیں تو مقتدیوں کو چاہئے کہ صفوں کو توڑ دیں یعنی سنت پڑھنے کے لئے صف بندی کے ساتھ کھڑے نہ ہوں بلکہ آگے پیچھے ہٹ کر کھڑے ہوں۔ اور امام کو بھی چاہئے کہ وہ بھی امامت کے مصلے سے ہٹ کر آگے پیچھے یا دائیں بائیں ہوجائے تاکہ بعد میں آنے والے نمازیوں کو یہ خیال نہ ہو کہ ہنوز جماعت کھڑی ہے اور کوئی نمازی اسی خیال میں امام کی اقتدا کر کے نماز کے لئے کھڑا ہوجائے اور پھر اس کی اقتداء فاسد ہو۔ اس چیز میں بھی اختلاف ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد دعا اور اوارد وغیرہ پڑھنے کے لئے امام کے لئے دائیں طرف گھوم کر بیٹھنا افضل ہے یا بائیں طرف؟ چناچہ صحیح قول یہ ہے کہ اسے اختیار ہے چاہے دائیں طرف گھوم کر بیٹھے اور چاہے بائیں طرف لیکن اکثر حضرات کی رائے یہ ہے کہ بائیں طرف گھوم کر بیٹھنا ہی متفقہ طور پر سب کے نزدیک افضل ہے کیونکہ حجرہ شریف اسی سمت ہے۔ اگر کوئی آدمی فرض نماز کے بعد سنتیں پڑھ لے اور اس کے بعد احادیث میں مذکورہ اوراد وظائف پڑھے تو یہ اس بعدیت کے منافی نہیں ہوگا جو احادیث میں مذکور ہیں (یعنی احادیث میں مذکور ہے کہ نماز کے بعد فلاں فلاں دعا یا وظیفہ پڑھا جائے تو اگر کوئی آدمی فرض نماز پڑھ کر پہلے سنتیں پڑھے اور پھر اس کے بعد مذکورہ اوارد وظائف پڑھے تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ اس فضیلت سے محروم رہا۔ کیونکہ حدیث کا مقصد تو یہ ہے کہ یہ اوارد وظائف نماز کے بعد پڑھے جائیں خواہ سنتوں کے بعد بلکہ سنتوں کے بعد ہی پڑھنا زیادہ مناسب ہے۔ اس طرح صحیح احادیث سے چونکہ یہ ثابت ہے کہ فجر اور مغرب کی نماز کے بعد لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد و ھو علی کل شییء قدیر دس مرتبہ پڑھا جائے، یا ان نمازوں کے بعد آیت الکرسی پڑھنا احادیث سے ثابت ہے تو اگر کوئی آدمی مغرب کی فرض نماز کے بعد پہلے سنتیں پڑھ لے اور پھر اس کے بعد آیت الکرسی یا مذکورہ بالا تہلیل پڑھے تو حدیث کے مطابق اسے وہی فضیلت حاصل ہوگی جو فرض نماز کے بعد انہیں پڑھنے پر حاصل ہوتی۔ بعض لوگ سوچ کر کہ جلدی بھی ہوجائے اور مذکورہ بالا چیزوں کو پڑھنے کی فضیلت بھی حاصل ہوجائے، مغرب کی سنتوں میں آیۃ الکرسی پڑھ لیتے ہیں یہ محض وہم ہے کیونکہ احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مغرب کی سنتوں میں قل یا ایھا الکافرون اور قل ھو اللہ احد پڑھا کرتے تھے۔
Top