مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 899
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲِ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ عِنْدَ قَبْرِیْ سَمِعْتُہ، وَمَنْ صَلّٰی عَلَیَّ نَائِیًا اُبْلِغْتُہ، رَوَاہُ الْبَیْھَقِیُّ فِیْ شُعَبِ الْاِیْمَانِ۔
درود رسول اللہ ﷺ کے پاس پہنچتے ہیں
اور حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ رحمت عالم ﷺ نے فرمایا جو آدمی میری قبر کے پاس کھڑا ہو کر مجھ پر درود پڑھتا ہے میں اس کو سنتا ہوں اور جو آدمی دور سے مجھے پر بھیجتا ہے وہ میرے پاس پہنچا دیا جاتا ہے۔ (بیہقی)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کو میری قبر کی زیارت کی سعادت میسر آتی ہے اور وہ وہاں حاضر ہو کر سلام بھیجتا ہے تو میں بغیر کسی واسطہ کے اس کے سلام کو سنتا ہوں اور جس کو یہ سعادت میسر نہیں آتی بلکہ وہ جہاں کہیں سے بھی مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اس کا سلام ملائکہ سیاحین میرے پاس پہنچا دیتے ہیں اور سلام کا جواب میں دونوں صورتوں میں دیتا ہوں۔ اس حدیث سے اندازہ لگا نا چاہئے کہ رسول اللہ ﷺ پر سلام بھیجنے کی فضیلت وسعادت ہے اور یہ کہ رسول اللہ ﷺ پر سلام بھیجنے والے کو اور خاص طور پر اس آدمی کو جو برابر اور کثرت سے آپ ﷺ پر سلام بھیجتا ہے کیا شرف و مرتبہ حاصل ہے؟ اگر کسی کے ایک سلام کا جواب بھی بارگاہ نبوت سے حاصل ہوجائے تو بہت بڑی سعادت ہے چہ جائکہ برابر اور ہر سلام کا جواب ملتا ہے۔ بہر سلام مکن رنجہ درجواب آن لب کہ صد سلام بس یکے جواب از تو
Top