مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 894
وَعَنْ اُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ قَالَ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ اِنِّیْ اُکْثِرُ الصَّلَاۃُ عَلَیْکَ فَکَمْ اَجْعَلُ لَکَ مِنْ صَلَا تِیْ فَقَالِ مَاشِئْتَ قُلْتُ الرُّبُعَ قَالَ مَاشِئْتَ فَاِنْ زِدْتَ فَھُوَ خَیْرٌ لَکَ قُلْتُ النِّصْفَ قَالَ مَاشِئْتَ فَاِنْ زِدْتَ فَھُوَ خَیْرٌ لَکَ قُلْتُ فَالثُّلْثَیْنِ قَالَ مَا شِئْتَ فَاِنْ زِدْتَ فَھُوَ خَیْرٌ لَکَ قُلْتُ اَجْعَلُ لَکَ صَلَا تِیْ کُلَّھَا قَالَ اِذًا تُکْفٰی ھَمُّکَ وَیُکَفَّرُلَکَ ذَنْبُکَ۔ (رواہ الترمذی)
درودو سلام بھیجنے کی کوئی مقررہ حد نہیں ہے
اور حضرت ابی ابن کعب ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں آپ ﷺ پر کثرت سے درود بھیجتا ہوں (یعنی کثرت سے درود بھیجنا چاہتا ہوں اب آپ ﷺ بتلا دیجئے کہ) اپنے لئے دعا کے واسطے جو وقت میں نے مقرر کیا ہے اس میں سے کتنا وقت آپ ﷺ پر درود بھیجنے کے لئے مخصوص کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا جس قدر تمہارا جی چاہے! میں نے عرض کیا کیا چوتھائی (وقت مقرر کردوں)؟ فرمایا جتنا تمہارا جی چاہے اور اگر زیادہ مقرر کرو تمہارے لئے بہتر ہے میں نے عرض کیا تو پھر دو تہائی مقرر کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا جس قدر تمہارا جی چاہے اور اگر زیادہ مقرر کرو تو تمہارے لئے بہتر ہے میں نے عرض کیا اچھا تو پھر میں اپنی دعا کا سارا وقت ہی آپ ﷺ کے درود کے واسطے مقرر کئے دیتا ہوں آپ ﷺ نے فرمایا یہ تمہیں کفایت کرے گا، تمہارے دین و دنیا کے مقاصد کو پورا کرے گا۔ اور تمہارے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ (جامع ترمذی )

تشریح
اجعل لک من صلوتی میں لفظ صلوٰۃ سے مراد دعا ہے۔ حضرت ابن کعب ؓ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میری خواہش ہے کہ آپ ﷺ پر بہت زیادہ درود بھیجوں۔ چونکہ میں نے اپنے اوقات میں سے ایک خاص وقت کو اس لئے مقرر کر رکھا ہے کہ میں اس وقت اپنے نفس کے لئے دعا کیا کرتا ہوں، اب میں چاہتا ہوں کہ اسی وقت میں آپ ﷺ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجا کروں لہٰذا آپ ﷺ ہی مقرر فرما دیجئے کہ اس وقت کا کتنا حصہ میں درود بھیجنے پر صرف کروں؟ رسول اللہ ﷺ نے ان کی اس درخواست پر درود بھیجنے کے لئے اس وقت کا کوئی حصہ مقرر نہیں فرمایا بلکہ اسے ان کے اختیار پر چھوڑ دیا اور فرمادیا کہ تم تو خود ہی جانتے ہو کہ درود بھیجنے کی کتنی فضیلت ہے اور اس کے کیا فضائل و برکات ہیں اس مقدس کام کے لئے تمہاری سعادت جتنا وقت چاہئے مقرر کرلو، تاہم یہ سمجھ لو کہ تم اس کام کے لئے جتنا زیادہ سے زیادہ وقت دو گے اسی قدر تمہارے حق میں بہتر ہوگا۔ چناچہ جب انہوں نے اپنے اس پورے وقت کو درود بھیجنے پر صرف کرنے کا اظہار کیا تو رسول اللہ ﷺ نے اظہار اطمینان و خوشنودی فرمایا اور فرمایا کہ تم نے ایک مستقل وقت کو اس مقدس عمل کے لئے متعین کر کے درحقیقت دنیا اور آخرت کی بھلائی اور مقاصد کو حاصل کرلیا ہے کیونکہ جب بندہ اپنی طلب اور رغبت کو اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ اور محبوب چیز میں خرچ کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کو اپنی خواہشات اور اپنے مطالب پر مقدم رکھتا تو خداوند اقدس اس کے تمام امور و مہمات میں اس کا مددگار و حامی ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے اس کی تمام دنیوی و دینی مقاصد پورے ہوجاتے ہیں من کان اللہ کان اللہ لہ یعنی جو اللہ تعالیٰ کا ہو کر رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا ہوجاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ درود شریف کی یہ برکت و فضیلت ہے کہ جو آدمی اس کا ورد رکھے اور اسے اپنی زندگی کا ایک ضروری جزء بنالے تو اس کے لئے دین و دنیا دونوں جگہ آسانیاں اور سہولتیں فراہم ہوجاتی ہیں اور اس کے تمام مقاصد خیر پورے ہوجاتے ہیں۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی (رح) فرماتے ہیں کہ جب میرے شیخ بزرگوار حضرت عبد الوہاب متقی نے مجھے مدینہ منورہ کی زیارت کے لئے رخصت فرمایا تو یہ الفاظ ارشاد فرمائے کہ جاؤ! اور یاد رکھو کہ اس راہ میں اداء فرض کے بعد کوئی عبادت رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجنے کے مماثل نہیں ہے لہٰذا (ادائے فرض کے بعد) تم اپنے اوقات کو اسی مقدس مشغلے میں صرف کرنا اور کسی دوسری چیز میں مشغول نہ ہونا حضرت شیخ عبدالحق (رح) فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اس کے لئے کوئی عدد مقرر فرما دیا جائے (کہ میں اتنی تعداد میں درود پڑھ لیا کروں) شیخ عبدالوہاب نے فرمایا اس سلسلے میں کسی عدد کا تعین کرنا شرط نہیں ہے بلکہ درود شریف اتنی کثرت کے ساتھ پڑھنا کہ اس کے ساتھ رطب اللسان ہوجاؤ اور اسی کے رنگ میں رنگین ہوجاؤ اور اسی میں مستغرق ہوجاؤ حصن حصین کے مصنف علام نے مفتاح میں لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجنے کے بیشمار فوائد ہیں اور دنیا اور آخرت میں اس کے لئے بےانتہا ثمرات مرتب ہوتے ہیں خصوصا تنگی و پریشانی، کسی خاص مہم، فکرات اور مطلب برآوری کے سلسلہ میں اس کا بارہا تجربہ ہوا ہے چناچہ خود میرا تجربہ ہے کہ میں اکثر خوف و ہلاکت کی جگہ گھر گیا اور مجھے وہاں سے اگر نجات ملی تو رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجنے کے صدقہ میں۔
Top