مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 891
وَعَنْہُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ لَا تَجْعَلُوْا بُیُوْتَکُمْ قُبُوْرًا وَلَا تَجْعَلُوْا قَبْرِ عِیْدًا وَصَلُّوْا عَلَیَّ فَاِنَّ صَلَا تَکُمْ تَبْلُغُنِیْ حَیْثُ کُنْتُمْ۔ (رواہ النسائی )
گھروں کو قبر نہ بنایا جائے
اور حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں۔ کہ میں نے رحمت عالم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اپنے گھروں کو قبروں کی طرح نہ رکھو اور میری قبر پر عید (کی طرح میلہ) نہ مقرر کرو۔ تم مجھ پر درود پڑھا کرو۔ کیونکہ تم جہاں کہیں بھی ہو تمہارا درود میرے پاس پہنچتا ہے۔ (سنن نسائی)

تشریح
حدیث کے پہلے جزء کے تین مطلب ہوسکتے ہیں اول یہ کہ اپنے گھروں کو قبروں کی طرح نہ سمجھ لو کہ جس طرح مردے اپنی قبر میں پڑے رہتے ہیں تم بھی اپنے گھروں میں مردوں کی طرح پڑے رہو ان میں نہ عبادت کرو اور نہ کچھ نمازیں پڑھو بلکہ اسی طرح گھروں میں بھی عبادت کرو اور کچھ نمازیں پڑھو تاکہ اس کے انوار و برکات گھر اور گھر والوں کو پہنچیں اور اس کی شکل یہ ہونی چاہئے کہ فرض نمازیں تو مساجد میں ادا کرو اور سنن و نوافل اپنے گھر آکر پڑھو کیونکہ نوافل مساجد کی بہ نسبت گھر میں ادا کرنا زیادہ افضل ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ۔ اپنے گھروں میں مردے دفن نہ کرو۔ اس موقعہ پر یہ اشکال پیدا نہ کیجئے کہ خود رسول اللہ ﷺ تو اپنے گھر ہی زیر زمین آرام فرما ہیں۔ کیونکہ یہ صرف رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کو ایسا نہ کرنا چاہئے۔ تیسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ قبروں کو سکونت کی جگہ قرار نہ دو جیسا کہ آجکل اولیاء اللہ کے مزارات اور قبرستانوں پر ان کے خدام مجاوروں نے سکونت اختیار کر رکھی ہے، تاکہ دل کی نرمی اور طبیعت و مزاج کی شفقت و رحمت ختم نہ ہوجائے بلکہ ایسا کرنا چاہئے کہ قبروں کی زیارت کر کے اور ان پر فاتحہ وغیرہ پڑھ کر اپنے گھروں کو واپس آجاؤ۔ حدیث کے دوسرے جزء میری قبر کو عید (کی طرح) قرار نہ دو کا مطلب یہ ہے کہ میری قبر کو عید گاہ کی طرح نہ سمجھو کہ وہاں جمع ہو کر زیب وزینت اور لہو و لعب کے ساتھ خوشیاں مناؤ اور اس سے لطف و سرور حاصل کرو۔ جیسا کہ یہود و نصاری اپنے انبیاء کی قروں پر اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں۔ حدیث کے اس جزء سے آج کل کے ان نام نہاد ملاؤں اور بدھ پرستوں کو یہ سبق حاصل کرنا چاہئے جنہوں نے اولیا اللہ کے مزارات کو اپنی نفسانی خواہشات اور دنیاوی اغراض کا منبع و مرجع بنا رکھا ہے اور ان مقدس بزرگوں کے مزارات پر عرس کے نام سے دنیا کی وہ خرافات اور ہنگامہ آرائیاں کرتے ہیں جن پر کفر و شرک بھی خندہ زن ہیں۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ان کے حوالے مانڈوں نذر و نیاز اور لذت پیٹ و دہن نے ان کی عقل پر نفس پرستی اور ہوس کاریوں کے وہ موٹے پردے چڑھا دیئے ہیں جن کی موجودگی میں نہ انہیں نعوذ باللہ قرآنی احکام کی ضرورت ہے اور نہ انہیں کسی حدیث کی حاجت۔ اللہ ان لوگوں کو ہدایت دے۔ آمین بعض علماء نے اس جزء کی تشریح یہ کی ہے عید کی طرح سال میں صرف ایک دو مرتبہ ہی میری قبر کی زیارت کے لئے نہ آیا کرو بلکہ اکثر و بیشتر حاضر ہوا کرو۔ اس صورت میں آپ ﷺ نے اپنی قبر کی زیادہ سے زیادہ زیارت اور اس محیط علم و عرفان اور منبع امن و سکون پر اکثر و بیشتر حاضری پر امت کے لوگوں کو ترغیب دلائی ہے۔ حدیث کے آخری جزء کا مطلب یہ ہے کہ مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجو، اگر کوئی آدمی میرے روضے سے دور ہے اور بعد مسافت اختیار کئے ہوئے ہے تو اس کو اس کا خیال نہ کرنا چاہئے بلکہ اسے چاہئے کہ وہ اپنی جگہ بیٹھا ہوا ہی مجھ پر درود بھیجتا رہے کیونکہ جہاں سے بھی درود بھیجا جائے گا میرے پاس پہنچ جائے گا۔ اس طرح آپ ﷺ نے ان مشتاقان زیارت کی جنہیں روضہ اقدس پر حاضری کی سعادت حاصل نہیں ہوسکی۔ تسلی فرمائی ہے کہ اگرچہ مجبوریوں کی بنا پر تم مجھ سے دور ہو لیکن تمہیں چاہئے کہ توجہ اور حضور قلب سے غافل نہ رہو کہ قرب جانے چوں بود بعد کانے سہل ست
Top