مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 883
رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجنے اور اس کی فضلیت کا بیان
لغوی طو پر صلوۃ کے معنی دعا، رحمت اور استغفار کے ہیں اور درود کا مطلب ہے بندوں کی جانب سے رسول اللہ ﷺ کے لئے اللہ جل شانہ کی ایسی رحمت کو طلب کرنا جو دنیا و آخرت کی بھلائی کو شامل ہو۔ ا اللہ تعالیٰ نے بندوں کو رسول اللہ ﷺ پر صلوٰۃ وسلام یعنی درود بھیجنے کا حکم دیا ہے چناچہ ارشاد بانی ہے۔ آیت ( يٰ اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِ يْمًا) 33۔ الاحزاب 56) اے ایمان والو تم آپ (یعنی رسول اللہ ﷺ پر سلام اور حمت بھیجو۔ علمائے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم وجوب کے لئے ہے چناچہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ جتنی مرتبہ بھی رسول اللہ ﷺ کا نام مبارک سنا جائے ہر ہر بار درود بھیجا جائے۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ جس طرح پوری زندگی میں صرف ایک مرتبہ آپ ﷺ کی نبوت کی گواہی دینی فرض ہے اسی طرح پوری عمر میں صرف ایک مرتبہ آپ ﷺ پر درود بھیجنا فرض ہے۔ اس کے بعد زیادہ سے زیادہ درود بھیجنا مستحب و مسنون اور شعار اسلام میں ہے جس پر بیحد و حساب اجر وثواب کا وعدہ ہے۔ حضرت قاضی ابوبکر (رح) تو فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین پر فرض کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر درود وسلام بھیجا جائے اور چونکہ اس سلسلے میں کوئی خاص وقت متعین نہیں کیا اس لئے واجب ہے کہ درود وسلام زیادہ سے زیادہ بھیجا جائے اور اس میں غفلت نہ برتی جائے لیکن بعض حضرات نے حضرت قاضی ابوبکر (رح) کے اس قول کے مقابلے میں پہلے قول کو ترجیح دی ہے۔ التحیات میں درود پڑھنا فرض ہے یا سنت حضرت امام اشافعی (رح) نے التحیات میں درود پڑھنے کو فرض کہا ہے لیکن علماء نے صراحت کی ہے کہ امام اشافعی (رح) کا یہ قول شاذ ہے اس مسئلے میں امام شافعی (رح) کا موافق کوئی عالم نہیں ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کا معتمد و مفتی بہ قول یہ ہے کہ کوئی آدمی اگر ایک ہی مجلس میں سرور کائنات ﷺ کا نام مبارک کئی مرتبہ سنے تو اس پر صرف ایک مرتبہ درود بھیجنا واجب ہے اور ہر مرتبہ بھیجنا مستحب ہے اور التحیات میں درود پڑھنا سنت ہے۔ صلوٰۃ وسلام کے الفاظ کا استعمال غیر انبیاء کے لئے جائز ہے یا نہیں؟ علماء کے ہاں اس بات پر اختلاف ہے کہ انبیاء کے علاوہ دوسرے لوگوں کے ناموں سے ساتھ صلوٰۃ وسلام کے الفاظ استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟ مثلاً رسول اللہ ﷺ کے اسم گرامی کے ساتھ ﷺ یا دوسرے انبیاء کے اسماء کے ساتھ (علیہ السلام) کے الفاظ بولے اور لکھے جاتے ہیں تو اس طرح انبیاء کے علاوہ کسی دوسری آدمی کے نام کے ساتھ ان الفاظ کا استعمال جائز ہوگا یا نہیں؟ چناچہ جمہور علماء فرماتے ہیں کہ ان الفاظ کا استعمال صرف انبیاء کے لئے مخصوص ہے۔ ان کے علاوہ کسی دوسرے آدمی کے لئے ان الفاظ کو استعمال کرنا جائز نہیں ہے البتہ دوسرے لوگوں کے اسماء کے ساتھ غفر اللہ، (رح) اور ؓ وغیرہ کے الفاظ استعمال کئے جائیں۔ علامہ طیبی (رح) نے نقل کیا ہے کہ انبیاء کے علاوہ دوسرے لوگوں پر دورد بھیجنا خلاف اولیٰ ہے۔ بعض حضرات نے حرام اور مکروہ بھی کہا ہے اس مسئلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ غیر انبیاء اور ملائکہ پر صلوٰۃ وسلام بھیجنا ابتدا اور مستقلاً مکروہ تنزیہی ہے کیونکہ یہ اہل بدعت کا شعار ہے البتہ انبیاء کے ساتھ ان پر بھیجنا جائز ہے مثلا اس طرح کہا جاسکتا ہے صلی اللہ علی محمد و علی الہ و اصحابہ وسلم یعنی محمد ﷺ پر اور آپ کی آل اولاد پر اور آپ ﷺ کے صحابہ پر اللہ کی رحمت و برکت وا اللہ اعلم
Top