مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 873
وَعَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ ص قَالَ کُنَّا اِذَا صَلَّےْنَا مَعَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قُلْنَا السَّلَامُ عَلَی اللّٰہِ قِبَلَ عِبَادِہِ السَّلَامُ عَلٰی جِبْرَئِےْلَ السَّلَامُ عَلٰی مِےْکَآئِےْلَ السَّلَامُ عَلٰی فُلَانٍ فَلَمَّا انْصَرَفَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اَقْبَلَ عَلَےْنَا بِوَجْھِہٖ قَالَ لَا تَقُوْلُوا السَّلَامُ عَلَی اللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ ھُوَ السَّلَامُ فَاِذَا جَلَسَ اَحَدُکُمْ فِی الصَّلٰوۃِ فَلْےَقُلْ التَّحِےَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّےِّبٰتُ اَلسَّلَامُ عَلَےْکَ اَےُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ اَلسَّلَامُ عَلَےْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصّٰلِحِےْنَ فَاِنَّہُ اِذَا قَالَ ذَالِکَ اَصَابَ کُلَّ عَبْدٍ صَالِحٍ فِی السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہُ ثُمَّ لِےَتَخَےَّرْ مِنَ الدُّعَآءِ اَعْجَبَہُ اِلَےْہِ فَےَدْعُوْہُ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
التحیات میں ہاتھوں کو رکھنے کا طریقہ
اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ جب ہم سرور کائنات ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھتے تو (قعدہ میں التحیات کی بجائے) یہ پڑھا کرتے تھے۔ السلام علی اللہ قبل عبادہ السلام علی جبرائیل السلام علی میکائیل السلام علی فلان اللہ پر سلام ہے، میکائیل پر سلام ہے اس کے بندوں پر سلام بھیجے سے پہلے جبرائیل پر سلام ہے اور فلاں (یعنی فرشتوں میں سے کسی فرشتے پر یا انبیاء میں سے کسی نبی پر سلام ہے۔ چناچہ (ایک دن) جب رسول اللہ ﷺ (نماز پڑھ کر) فارغ ہوئے تو ہماری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ اللہ پر سلام نہ کہو کیونکہ اللہ تعالیٰ (تو خود) سلام ہے یعنی پروردگار کی ذات تمام آفات و نقصانات سے محفوظ وسالم ہے وہ بندوں کو تمام ظاہری و باطنی آفات و نقصانات سے سلامتی دیتا ہے اور چونکہ اس کے لئے اور اس کی طرف سے سلامتی ثابت ہے اس لئے سلامتی کے لئے دعا تو اس کے لئے کرنی چاہئے جس کو نقصانات و آفات کا خوف ہو اور جو اس کی سلامتی کا محتاج ہو لہٰذا جب تم میں سے کوئی نماز (کے قعدہ) میں بیٹھے تو یہ کہے التحیات اللہ والصلوات والطیبات اسلام علیک ایھا النبی و رحمۃ اللہ وبرکا تہ السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین سب تعریفیں اور بدنی عبادتیں (یعنی نماز وغیرہ اور مالی عبادتیں (یعنی زکوٰۃ وغیرہ) اللہ ہی کے لئے ہے۔ اے نبی ﷺ تم پر سلام اور اللہ کی برکتیں ہوں۔ ہم پر بھی سلام اور اللہ کے سب نیک بندوں پر سلام۔ آپ ﷺ نے فرمایا جو آدمی ان کلمات کو کہتا ہے تو اس کی برکت زمین و آسمان کے ہر نیک بندے کو پہنچتی ہے۔ (اس کے بعد آپ ﷺ نے ان کلمات کو شہادتین پر ختم فرمایا جو تمام اعمال کی اصل اور خلاصہ ہے۔ چناچہ فرمایا۔ اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔ پھر فرمایا اس کے بعد بندے کو جو دعا اچھی لگے اسے اختیار کرے اور اللہ کے سامنے دست سوال دراز کرے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

تشریح
ابن ملک (رح) فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ کو معراج حاصل ہوئی اور آپ ﷺ بارگاہ الٰہی میں باریاب ہوئے تو اللہ جل شانہ کی تعریف میں آپ ﷺ یہ کلمات زبان سے ادا فرمائے التحیات اللہ والصلوات والطیبات۔ تمام تعریفیں اور مالی و بدنی عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں۔ اس کے جواب میں بارگاہ الوہیت سے فرمایا گیا۔ السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اے نبی تم پر سلام اور اللہ کی برکتیں و رحمتیں!۔ اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ علینا وعلی عباد اللہ الصالحین۔ ہم پر بھی سلام اور اللہ کے نیک بندوں پر بھی سلام۔ تب جبرائیل (علیہ السلام) نے فرمایا۔ اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسول۔ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ بہر حال السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحیں میں نیک بندوں کی قید لگا کر اس طرف اشارہ کردیا گیا ہے کہ بدبخت و بدکار بندوں پر سلام بھیجنا یا ان کو سلام کہنا مناسب نہیں ہے۔ اس کی سعادت کے حقدار اور لائق تو وہی بندے ہیں جو اپنے عقیدہ و فکر اور اعمال و کردار کے اعتبار سے اللہ اور اللہ کے رسول کی نظر میں پسندیدہ ہیں جنہیں صالح کہا جاتا ہے اور بندہ صالح وہی ہے جو حقوق اللہ و حقوق العباد دونوں کی رعایت کو مد نظر رکھتا ہے اور دونوں کو پورا کرتا ہے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی (رح) نے فرمایا ہے کہ صالح دراصل اس حالت کا نام ہے جس میں بندے کے ذاتی و نفسانی ارادے و خواہشات موت کے گھاٹ اتر جائیں اور اللہ تعالیٰ کی مراد و مقصد پر قائم رہے (جس کی وجہ سے وہ بند صالح کہلانے کا مستحق ہو) لہٰذا بندے کو چاہئے کہ وہ پروردگار کی رضا و خواہش پر اس کیفیت کے ساتھ راضی اور اپنے تمام امور کو خداوندعالم کی طرف اس طرح سوپنے والا ہوجائے جیسا کہ نومولود بچہ دایہ کے ہاتھ میں یا میت نہلانے والوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ علماء فرماتے ہیں کہ جب بندہ اس مرتبے پر پہنچ جاتا ہے اور اس کا جذبہ بندگی و اطاعت اس قدر لطیف و پاکیزہ ہوجاتا ہے تو وہ یقینی طور پر تمام دنیاوی و جسمانی اور نفسانی آفات اور بلاؤں سے محفوظ و مامون رہتا ہے۔ آخر میں۔ اتنی بات اور سمجھتے چلے کہ التحیات کو دونوں قعدوں میں پڑھنا چاہئے اور یہ کہ درمیان کا قعدہ (یعنی جب دو رکعتوں کے بعد بیٹھتے ہیں) واجب ہے اور آخری قعدہ (جس میں سلام پھیرا جاتا ہے) فرض ہے۔
Top