التحیات میں ہاتھوں کو رکھنے کا طریقہ
حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ سرور کائنات ﷺ تشہد (یعنی التحیات) میں بیٹھتے تو اپنا بایاں ہاتھ اپنے بائیں گھٹنے پر رکھتے اور اپنا داہنا ہاتھ اپنے داہنے گھٹنے پر رکھتے تھے اور اپنا (داہنا) ہاتھ مثل عدد تریپن کے بند کر کے شہادت کی انگلی سے اشارہ کرتے تھے۔ اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جب آپ ﷺ نماز ( کے قعدہ) میں بیٹھتے تو دونوں ہاتھوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھ لیتے تھے اور داہنے ہاتھ کی اس انگلی کو جو انگوٹھے کے قریب ہے۔ (یعنی شہادت کی انگلی کو) اٹھاتے اور اس کے ساتھ دعا مانگتے (یعنی) اس کو اٹھا کر اشارہ وحدانیت کرتے) اور بایاں ہاتھ اپنے زانو پر کھلا ہوا رکھتے۔ (صحیح مسلم)
تشریح
مثل عد ترپین کا مطلب یہ ہے کہ اہل حساب گنتی کے وقت انگلیوں کو جس طرح بند کرتے جاتے ہیں کہ انہوں نے ہر انگلی کو ایک عدد متعین کے لئے مقرر کیا ہوا ہے کہ انہیں اکائیوں کے لئے یہاں رکھا جائے اور دہائی، سینکڑہ اور ہزار کے لئے فلاں فلاں جگہ۔ لہٰذا راوی کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے شہادت کی انگلی کو اشارے کے لئے اٹھاتے وقت بقیہ انگلیوں کو اس طرح بند کیا جس طرح تریپن کے عدد کے لئے انگلیوں کو بند کرتے ہیں اور صورت اس کی یہ ہوتی ہے کہ چھنگلیا، اس کے قریب والی انگلی اور بیچ کی انگلی کو بند کرلیا جائے۔ شہادت کی انگلی کھلی رکھی جائے اور انگوٹھے کے سرے کو شہادت کی انگلی کی جڑ میں رکھا جائے۔ یہ عدد تریپن (٥٣) کہلاتا ہے۔ چناچہ حضرت امام شافعی اور ایک روایت کے مطابق حضرت امام احمد نے اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے اسی طریقے کو اختیار کیا ہے۔ حنفیہ کے نزدیک شہادت کی انگلی اٹھانے کا طریقہ ابھی آپ نے عدد تریپن کی وضاحت پڑھی اسی طرح ایک عدد تسعین (٩٠) ہوتا ہے اس کی شکل یہ ہوتی ہے کہ چھنگلیا اور اس کے قریب والی انگلی کو بند کرلیا جائے اور شہادت کی انگلی کو کھول دیا جائے اور انگوٹھے کا سرا بیچ کی انگلی کے سرے پر رکھ کر حلقہ کی شکل دے دی جائے۔ حضرت امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ شہادت کی انگلی اٹھانے کے لئے یہی طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ اور حضرت امام احمد کا ایک قول بھی یہی ہے نیز حضرت امام شافعی کا قول قدیم بھی یہی ہے اور یہی طریقہ آگے آنے والی صحیح مسلم کی روایت سے بھی ثابت ہے جو حضرت عبداللہ ابن زبیر سے مروی ہے، اسی طرح احمد، و ابوداؤد نے بھی حضرت وائل ابن حجر سے نقل کیا ہے۔ حضرت امام مالک کا مسلک یہ ہے کہ داہنے ہاتھ کی تمام انگلیاں بند کرلی جائیں اور شہادت کی انگلی کھلی رکھی جائے۔ بعض احادیث میں انگلیوں کو بند کئے بغیر شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا بھی ثابت ہے چناچہ بعض حنفی علماء کا کا مختار مسلک یہی ہے اور معلوم ایسا ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ کا عمل بھی مختلف رہا ہوگا کہ آپ ﷺ کبھی تو اشارہ بغیر عقد کے کرتے ہوں گے اور کبھی عقد کے ساتھ کرتے ہوں گے۔ اسی بنا پر ان مختلف احادیث کی توجیہ کہ جن سے یہ دونوں طریقے ثابت ہوتے ہیں یہی کی جاتی ہے۔ ماوراء النھر (یعنی بخارا و سمر قند وغیرہ) اور ہندوستان ( ممکن ہے کہ صاحب مظاہر حق علامہ نواب قطب الدین کے زمانے میں عمل عقد و اشارت کے ترک کے قائل ہوں مگر اب تو سب حنفی اس کے قائل ہیں) کے حنفیہ نے اس عمل عقد و اشارت (یعنی داہنے ہاتھ کی انگلیوں کو بند کر کے شہادت کی انگلی کو اٹھانے) کو ترک کیا ہے، گو متقدمین کے ہاں یہ عمل جاری تھا مگر متأخرین نے اس میں اختلاف کیا ہے لیکن حرمین اور عرب کے دوسرے شہروں کے علماء کے نزدیک مختار مسلک عمل عقد و اشارت کرنا ہی ہے۔ علامہ شیخ ابن الہمام (رح) نے جن کا شمار محققین حنفیہ میں ہوتا ہے فرمایا ہے کہ اول تشہد (التحیات) میں شہادتین تک تو ہاتھ کھلا رکھنا چاہئے اور تہلیل کے وقت انگلیوں کو بند کرلینا چاہئے نیز (شہادت کی انگلی سے) اشارہ کرنا چاہئے۔ موصوف لکھتے ہیں کہ اشارہ کرنے کو منع کرنا روایت اور درایت کے خلاف ہے۔ محیط میں مذکور ہے کہ دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کو اٹھانا حضرت امام ابوحنیفہ اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک سنت ہے اور حضرت امام ابویوسف (رح) سے بھی اسی طرح ثابت ہیے۔ علامہ نجم الدین زاہدی (رح) فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء کا متفقہ طور پر یہ قول ہے کہ عمل اشارت سنت ہے۔ لہٰذا جب صحابہ کرام تابعین، ائمہ دین، محدثین عظام، فقہائے امت اور علمائے کوفہ و مدینہ سب ہی کا مذہب و مسلک یہ ہے کہ التحیات میں شہادتین کے وقت دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی کو اٹھانا یعنی اشارہ وحدانیت کرنا چاہئے اور یہ کہ اس کے ثبوت میں بہت زیادہ احادیث اور اقوال صحابہ وارد ہیں تو پھر اس پر عمل کرنا ہی اولیٰ و ارجح ہوگا۔ اشارہ کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ جب کلمہ شہادت پر پہنچے تو شافعیہ کے نزدیک الا اللہ کہتے وقت شہادت کی انگلی اٹھالی جائے اور حنفیہ کے نزدیک جس وقت لا الہ کہے تو انگلی اٹھائے اور جب الا اللہ کہے تو انگلی رکھ دے۔ اس سلسلہ میں اتنی بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ انگلی سے اوپر کی جانب اشارہ نہ کیا جائے تاکہ جہت کا وہم پیدا نہ ہوجائے۔ حدیث کے الفاظ یدعوبھا) (اس کے ساتھ دعا مانگتے) کا مطلب یہی ہے کہ آپ ﷺ شہادت کی انگلی اٹھا کر اشارہ وحدانیت کرتے جس کی طرف ترجمہ میں یہ بھی اشارہ کردیا گیا ہے یا پھر دعا سے مراد ذکر ہے کو دعا بھی کہتے ہیں کیونکہ ذکر کرنے والا بھی مستحق انعام و اکرام ہوتا ہے۔ حدیث کے آخری جملے بایاں ہاتھ اپنے زانو پر کھلا ہوا رکھتے تھے کا مطلب یہ ہے کہ بائیں ہاتھ کو زانو کے قریب یعنی ران پر کھلا ہوا قبلہ رخ رکھتے تھے۔