مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 860
وَعَنْ رَّبِےْعَۃَ بْنِ کَعْبٍ ص قَالَ کُنْتُ اَبِےْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَاَتَےْتُہ، بِوَضُوْۤئِہٖ وَحَاجَتِہٖ فَقَالَ لِیْ سَلْ فَقُلْتُ اَسْاَلُکَ مُرَافَقَتَکَ فِی الْجَنَّۃِ قَالَ اَوْ غَےْرَذَالِکَ قُلْتُ ھُوَ ذَاکَ قَالَ فَاَعِنِّیْ عَلٰی نَفْسِکَ بِکَثْرَۃِ السُّجُوْدِ۔ (صحیح مسلم)
کثرت سجدہ جنت میں رسول اللہ ﷺ کی رفاقت کا ذریعہ ہے
اور حضرت ربیعہ ابن کعب ( حضرت ربیعہ بن کعب نام اور ابوفراس کنیت ہے۔ آپ سفر و حضر میں حضور ﷺ کے ساتھ رہے اور ٢٣ ھ میں آپ کا انتقال ہوا) فرماتے ہیں کہ میں رات کو رحمت عالم ﷺ کے ساتھ رہا کرتا تھا اور وضو کا پانی دوسری ضروریات (مثلاً مسواک، جائے نماز وغیرہ) پیش کیا کرتا تھا (ایک روز) سرکار دو عالم ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ (دین و دنیا کی بھلائیوں میں سے جو کچھ مانگنا چاہتے ہو) مانگو! میں نے عرض کیا میری درخواست تو صرف یہ ہے کہ جنت میں مجھ کو آپ ﷺ کی رفاقت نصیب ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔ (جس مرتبے کو تم پہنچنا چاہتے ہو یہ تو بہت عظیم ہے اس کے سوا) کچھ اور مانگو۔ میں نے عرض کیا میری درخواست تو بس یہی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا سو اس مرتبے کو حاصل کرنے کے لئے) تم کثرت سے سجود کے ذریعے اپنی ذات سے میری مدد کرو۔ (صحیح مسلم)

تشریح
ربیعہ چونکہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں رہا کرتے تھے اور آپ ﷺ کی ضروریات پیش کرنے پر معمور تھے۔ اس لئے ان کی اس خدمت اور جذبہ اطاعت و فرمانبردای کے صلہ میں آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ تم دین و دنیا کی جو بھی بھلائی چاہتے ہو مانگ لو۔ ظاہر ہے کہ ایک وفادار خادم اور جاں قربان کرنے والا غلام اس سے بڑی اور کیا تمنا رکھ سکتا ہے کہ اس کا وہ آقا جس کی خدمت نے اس کو دین و دنیا کی عظیم سعادتوں سے نواز رکھا ہے جنت میں بھی اسے ان کی رفاقت کی سعادت حاصل ہوجائے چناچہ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ! میری سب سے بڑی تمنا اور سب سے بڑی خواہش تو بس یہی ہے کہ جس طرح آپ ﷺ نے مجھے اس دنیا میں اپنے قدموں میں جگہ دے رکھی ہے اسی طرح جنت کی پر سعادت فضا میں بھی آپ ﷺ کی رفاقت کا شرف حاصل ہوجائے، پہلے تو رسول اللہ ﷺ نے چاہا کہ یہ اس کے علاوہ کچھ اور مانگ لیں مگر جب دیکھا کہ انہیں اپنی اس خواہش پر اصرار ہے تو فرمایا کہ اس عظیم مرتبے اور اس بڑی سعادت کو حاصل کرنے کے لئے تم کثرت سجود کے ذریعے اپنی ذات سے میری مدد کرو۔ یعنی اگر تمہارا یہی اصرار ہے اور تم اسی خواہش کی تکمیل چاہتے ہو تو پھر آؤ تم کو میں ایک ایسا راستہ بتادیتا ہوں جو تمہاری منزل مقصود تک جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تمہارا اپنا تو کام یہ ہونا چاہئے کہ نماز پڑھتے رہو اور بارگاہ الٰہی میں کثرت سے سجدے کر کے اپنی عجز و بےچارگی کا اظہار کیا کرو اور سجدہ میں دعا کرتے رہا کرو، ادھر میں بھی تمہارے لئے دعا کرتا ہوں اور حصول مقصد اور تمہاری اس خواہش کی تکمیل کے لئے کوشش کرتا ہوں، لیکن شرط یہ ہے کہ میں تمہیں جو بتاؤں یعنی جو حکم دوں اس پر پورا پورا عمل کرتے رہو کہ راہ سعادت حاصل ہونے کی تدیبر یہی ہے اور انشاء اللہ اس کے بعد تم منزل مقصود تک پہنچ جاؤ گے۔ فتح قفل ارچہ کلید است اے عزیز جنبش از دست تو می خواہند نیز یعنی عزیز من! قفل اگرچہ کنجی ہی سے کھلتا ہے لیکن تمہارے ہاتھ کی حرکت بھی تو ضروری ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کی خدمت کرنا اور ان کی رضا اور خوشنودی کو پوری کرنا در حقیقت فضیلت وسعادت کے حصول کا ذریعہ ہے خاص طور پر سرکار دو عالم ﷺ کی رضا کو مد نظر رکھنا تو دین و دنیا کی سب سے بڑی سعادت و بھلائی ہے۔ اس حدیث میں اس بات پر تنبیہ بھی ہے کہ طالب صادق کو چاہئے کہ اس کا مطلوب صرف آخرت کی نعمتیں ہوں کہ جن کو دوام وبقاء حاصل ہے دنیا کی لذتوں کی طرف التفات نہ کرے کہ جو فانی اور ختم ہوجانے والی ہیں۔ لیکن شرط یہ بھی ہے کہ بندگی میں اپنی طرف سے کوئی قصور نہ ہو کیونکہ محض آرزو اور تمنا ہی منزل مقصود تک نہیں پہنچاتی بلکہ اس میں اپنی طرف سے کوشش وسعی کو بھی دخل ہوتا ہے جیسا کہ بڑوں نے کہا ہے کہ کسی تمنا اور آرزو کے ہوتے ہوئے کوشش وسعی نہ کرنا بلکہ بیکار بیٹھنا ٹھنڈے لوہے کو کوٹنا ہے۔ کارکن کار بگزرار گفتار کاندریں راہ کار دار دکار یعنی عمل کرو زبانی جمع خرچ سے بچو، کیونکہ اس راستے میں تو صرف عمل ہی عمل ہے۔
Top