مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 836
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ص قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَلَا اِنِّی نُھِیتُ اَنْ اَقْرَأَ الْقُرْآنَ رَاکِعًا وَسَاجِدًا فَاَمَّا الرُّکُوْعُ فَعَظِّمُوْا فِیہِ الرَّبَّ وَاَمَّا السُّجُوْدُ فَاجْتَھِدُوْا فِی الدُّعَاءِ فَقَمِنٌ اَنْ یستَجَابَ لَکُمْ۔ (مسلم
رکوع و سجود میں قرآن پڑھنے کی ممانعت
اور حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ راوی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا لوگو خبردار رہو! مجھے اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ میں اس حالت میں رکوع یا حالت سجدہ میں قرآن پڑھوں! لہٰذا تم رکوع میں اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کرو اور سجدے میں دعا کی پوری پوری کوشش کیا کرو۔ مناسب ہے کہ یہ دعا تمہارے لئے قبول کی جائے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
بعض حضرات تو فرماتے ہیں کہ یہ نہی تنزیہی ہے اور بعض حضرات کا خیال ہے کہ نہی تحریمی ہے اور قیاس بھی یہی کہتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نماز کی تمام حالتوں (ہیتوں میں سے ہر حالت وہیبت کو ذکر کی انواع میں سے ہر ایک نوع کو ذکر کے لئے مقرر کیا ہے مثلاً قیام کو جو کہ نماز کی تمام حالتوں وہیتوں میں سب سے زیادہ افضل اور رکن اعظم ہے قرآن پڑھنے کے لئے مقرر کیا ہے جو تمام اذکار میں سے سب سے افضل و اعلیٰ درجے کا ذکر ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی جانب سے حالت قیام کو صرف قرآن پڑھنے کے لئے مقرر کرنے کے بعد کسی قسم کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اس کے خلاف کیا جائے اور اگر کوئی اس کے خلاف کرے گا تو وہ یا فعل حرام کا مرتکب ہوگا یا اس کا یہ فعل مکروہ ہوگا۔ اسی طرح دوسرے ارکان کے بارے میں قیاس کیا جاسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ میں رکوع و سجود میں قرآن پڑھوں کیونکہ رکوع و سجود اس لئے مقرر کئے گئے ہیں کہ ان میں پروردگار عالم کی بڑائی بیان کی جائے اور دعا مانگی جائے۔ رکوع میں بڑائی بیان کرنے کا مطلب یہ ہے کہ سبحان ربی العظیم پڑھو۔ سجدہ میں دعا مانگنے کا حکم دیا گیا ہے تو سمجھ لیجئے کہ دعا کی دو قسمیں ہوتی ہیں۔ دعا کی ایک قسم تو یہ ہوتی ہے کہ پروردگار سے اپنے مطلب و مراد کے لئے درخواست کی جائے اور دعا کی دوسری قسم یہ ہوتی ہے کہ پروردگار کی حمد و ثنا اور تکبیر کی جائے اور اس کے ذکر میں مشغول رہا جائے کیونکہ رحیم و کریم کی تعریف وغیرہ بیان کرنا اور اس کے ذکر میں مشغول رہنا بھی حقیقت میں دعا ہی ہے۔ لہٰذا سجدے میں کثرت سے دعا کرنے کا جو حکم فرمایا گیا ہے وہ دونوں قسم کی دعاؤں پر شامل ہے اس سے معلوم ہوا کہ حنفیہ کا ذکر پر اکتفا کرنا اور صریحا دعا سے منع کرنا بھی دعا کے حکم میں عین بجا آوری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ من شغلہ ذکری عن مسلتی اعطیتہ افضل اعطی السائلین (یعنی جس آدمی کو میرے ذکر نے مجھ سے سوال کرنے سے روکا (اس طرح کہ وہ آدمی میرے ذکر میں مشغول ہونے کی وجہ سے مجھ سے سوال نہ کرسکا) تو میں اس آدمی کو اس چیز سے کہ جو مانگنے والوں کو دیتا ہوں (بہتر (چیز) بخشتا ہوں۔ مگر شرط یہ ہے کہ وہ آدمی اس وقت پروردگار کے ذکر میں خلوص دل سے مشغول رہے۔ بعض محققین حنفیہ نے ان دونوں چیزوں میں یہ تطبیق دی ہے کہ نوافل میں تو صریح دعا مانگنی چاہئے اور فرائض میں صرف تسبیحات پر اکتفاء کرنا چاہئے۔
Top