نماز میں کن آیتوں کی قراءت کے بعد کہنا چاہئے؟
اور حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ آقائے نا مدار ﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے جو آدمی سورت وا لتین و الزیتوں پڑھے اور (اس آیت) (اَلَيْسَ اللّٰهُ بِاَحْكَمِ الْحٰكِمِيْنَ ) 95۔ التین 8) یعنی کیا اللہ سب سے بڑا حاکم نہیں ہے؟ پر پہچنے تو یہ الفاظ کہا کرے بلی و انا علی ذلک من الشھدین (یعنی ہا! اور میں اس کی شہادت دینے والوں میں سے ہوں) اور جو آدمی سورت لا اقسم بیوم القیمۃ پڑھے اور (اس آیت) الیس ذلک بقدر علی ان یحییٰ الموتی (یعنی کیا اس اللہ) کو اس بات پر قدرت نہیں کہ مردوں کو جلا اٹھائے) پر پہچنے تو کہے بلی (یعنی ہاں وہ اس بات پر قدرت رکھتا ہے) اور جو آدمی سورت والمرسلات پڑھے اور اس (آیت) فبای حدیث بعدہ یومنون یعنی اس کے بعد یہ کون سی بات پر ایمان لائیں گے) تو کہے امنا باللہ (یعنی ہم اللہ پر ایمان لائے) ابوداؤد اور ترمذی نے اس روایت کو (والتین کی آیت) وانا علی ذلک من الشاھدین تک نقل کیا ہے۔
تشریح
ان آتیوں یا اس قسم کی دوسری آیتوں کے جواب دینے کے سلسلے میں علماء کے ہاں اختلاف ہے چناچہ حضرت امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ خواہ یہ آیتیں نماز میں پڑھی جائیں یا نماز سے باہر پڑھی جائیں بہر صورت ان کے جواب میں مذکورہ الفاظ کہنے چاہئیں اور نماز خواہ نفل ہو یا فرض۔ حضرت امام مالک فرماتے ہیں کہ نماز سے باہر پڑھنے اور نفل نمازوں میں قرأت کرنے کی شکل میں تو جواب دینا چاہیے فرض نمازوں میں نہیں! حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ صرف نماز سے باہر پڑھنے کی صورت میں جواب دیا جائے نماز میں نہیں، خواہ فرض ہو یا نفل تاکہ یہ وہم نہ ہوجائے کہ یہ الفاظ بھی قرآن ہی کے ہیں۔ علامہ تور پشتی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی حدیث کے ظاہری اطلاق پر نظر کرتے ہوئے کہے کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ حکم تو نمازی کے بارے میں ہے (لہٰذا چاہیے کہ یہ جواب نماز میں بھی دیئے جائیں) تو ہم کہیں گے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ حکم نفل نمازوں کے بارے میں ہو، فرض نمازوں کے بارے میں نہ ہو۔ کیونکہ خود آقائے نامدار ﷺ کے بارے میں حضرت حذیفہ ؓ کی یہ روایت منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات (یعنی تہجد، کی نماز میں جب کسی آیت پر پہنچتے جس میں رحمت الٰہی کا ذکر ہوتا تھا تو آپ ﷺ اس جگہ قرأت روک کر پروردگار سے طلب رحمت کی درخواست کیا کرتے تھے اور جب کسی آیت پر پہنچتے جس میں عذاب الہٰی کا ذکر ہوتا تھا تو آپ ﷺ اس جگہ قرأت روک کر پروردگار کے عذاب سے پناہ مانگتے تھے نیز یہ کہ آپ ﷺ کے اس معمول یا حکم کو کسی صحابی نے بھی جہری فرائض نماز کے سلسلے میں روایت نہیں کیا ہے۔