مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 819
وَعَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَہَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّمَا جُعِلَ الْاِ مَامُ لِیُؤْ تَمَ بِہٖ فَاِذَا کَبَّرَ فَکَبِّرُ وْاوَاِذَا قَرَأَ فَاَ نْصِتُوْا۔ (رواہ ابوداؤد والنسائی و ابن ماجۃ)
امام کی متابعت ضروری ہے
اور حضرت ابوہریرہ ؓ راوی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا امام اس لئے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے، لہٰذا جب امام اللہ اکبر کہے تو تم بھی اللہ اکبر کہو اور جب امام قرأت کرے تو تم خاموش رہو۔ (سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ)

تشریح
فاذا اکبر فکبروا کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ ابن حجر عسقلانی (رح) نے فرمایا ہے کہ مقتدی تکبیر، امام کے تکبیر کہنے کے بعد کہیں۔ نہ تو اس کے ساتھ ساتھ کہیں اور نہ اس سے پہلے کہیں اور یہ حکم تکبیر تحریمہ میں تو واجب ہے البتہ دوسری تکبیرات میں مستحب ہے۔ حدیث کے دوسرے جزء فاذا قرا سے مراد مطلق ہے یعنی خواہ امام بلند قراءت کرے یا آہستہ سے پڑھے۔ دونوں صورتوں میں مقتدیوں کو خاموشی سے اس کی قرأت سننا چاہئے اس کے لئے آپ ﷺ نے فانصتوا یعنی چپ رہو فرمایا۔ فا ستمعوا یعنی سنو نہیں فرمایا ارشاد ربانی ہے۔ آیت (وَاِذَا قُرِي َ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَه وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ ) 7۔ الاعراف 204) یعنی جب قرآن پڑھا جائے تو (بلند آواز سے پڑھنے کی صورت میں) اسے سنو اور آہستہ آواز سے پڑھنے کی صورت میں) خاموش رہو۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ امام کے پیچھے مقتدیوں کے لئے کچھ پڑھنا مطلقاً ممنوع ہے خواہ نماز جہری (بآواز بلند ہو یا سری بآواز آہستہ) سورت فاتحہ کی قراءت میں ائمہ کے مسلک حضرت امام شافعی (رح) فرماتے ہیں کہ مقتدی کو سورت فاتحہ پڑھنا خواہ نماز جہری ہو یا سری واجب ہے اور سورت فاتحہ کے علاوہ کوئی سورت وغیرہ پڑھنا جائز ہے۔ حضرت امام احمد، حضرت امام مالک اور ایک قول کے مطابق خود حضرت امام شافعی رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا بھی مسلک یہ ہے کہ مقتدی کے لئے سورت فاتحہ کا پڑھنا صرف سری نماز میں واجب ہے جہری نماز میں محض امام کی قرأت سننا کافی ہے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے ہاں خواہ نمازی سری ہو یا جہری دونوں صورتوں میں مطلقاً قرأت مقتدی کے لئے ممنوع ہے نیز صاحبین یعنی حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد کے رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک بھی مقتدی کو پڑھنا مکروہ ہے۔ حضرت امام محمد جو حضرت امام اعظم کے جلیل القدر شاگرد اور فقہ حنفیہ کے امام ہیں فرماتے ہیں کہ صحابہ کی ایک جماعت کے قول کے مطابق امام کے پیچھے مقتدی اگر سورت فاتحہ کی قرأت کرے تو نماز فاسد ہوجاتی ہے۔ لہٰذا احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ عمل اس دلیل پر کیا جائے جو زیادہ قوی اور مضبوط ہو، چناچہ حنفیہ کی دلیل یہ حدیث ہے۔ الحدیث ( مَنْ کَانَ لَہ اِمامٌ فَقِرَاءَ ۃٌ الْاِ مَام قِرَاءَ ۃٌ لَہ،۔ یعنی (نماز میں) جس آدمی کا امام ہو تو امام کی قرأت ہی اس (مقتدی) کی قرأت ہوگی۔ یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔ البخاری و مسلم کے علاوہ سب ہی نے اسے نقل کیا ہے اور ہدایہ میں تو یہاں تک مذکورہ ہے علیہ اجماع الصحابۃ یعنی اسی پر صحابہ کا اتفاق تھا۔
Top