مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 809
وَعَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم قَرَأَ غَیْرَ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّالِیْنَ فَقَالَ اٰمِیْنَ مَدَّبِھَا صَوْتَہ،۔ (رواہ الترمذی و ابوداؤ، والدارمی و ابن ماجۃ)
آمین بآواز بلند کہی جاے یا آہستہ
اور حضرت وائل ابن حجر ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آقائے نامدار ﷺ کو سنا کہ آپ ﷺ نے (نماز میں) غیر المغضوب علیھم ولا الضالین پڑھا اور پھر دراز آواز سے آمین کہی۔ (ابوداؤ، دارمی، جامع ترمذی )

تشریح
دراز آواز سے آمین کہنے کا مطلب یا تو یہ ہے کہ آپ ﷺ نے آمین بآواز بلند کہی یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ نے لفظ آمین میں الف کو مد کے ساتھ یعنی کھینچ کر کہا۔ آمین کہنے کا مسئلہ بھی ائمہ کے یہاں مبحث فیہ ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے یہ بات جاننی چاہیے کہ اس مسئلے میں تو سب ائمہ متفق ہیں کہ سورت فاتحہ کے بعد آمین کہنا ہر نمازی کے لئے سنت ہے خواہ منفرد ہو یا امام کے ساتھ اسی طرح مقتدی کو بھی آمین کہنا سنت ہے خواہ امام کہے یا نہ کہے۔ اب اختلاف اس چیز میں ہے کہ آیا آمین بآواز بلند کہی جائے یا آہستہ آواز سے؟ چناچہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک آمین بآواز بلند کہنی چاہئے۔ حضرت امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک آمین آہستہ آواز سے کہنی چاہئے چناچہ وہ ان احادیث کے بارے میں جن سے آمین بآواز بلند کہنا ثابت ہے اور جو شافع وغیرہ کی مستدل ہیں یہ کہتے ہیں کہ یہ تمام احادیث اس بات پر محمول ہیں کہ ابتداء اسلام میں آپ ﷺ تعلیم کی خاطر آمین بآواز بلند کہتے تھے تاکہ صحابہ کرام یہ جان لیں کہ سورت فاتحہ کے بعد آمین کہنا چاہئے۔ صحابہ جب یہ سیکھ گئے تو آپ ﷺ آمین آہستہ آواز سے کہنے لگے چناچہ حضرت ابن ہمام (رح) نے کہا ہے کہ احمد، ابویعلی، طبرانی، دارمی اور حاکم نے شعبہ کی یہ حدیث نقل کی ہے کہ علقمہ ابن عائل اپنے والد مکرم حضرت وائل سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے (یعنی وائل) نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھی چناچہ رسول اللہ ﷺ جب غیر المغضوب علیھم ولا الضالین پر پہنچے تو آہستہ آواز سے آمین کہی۔ حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا چار چیزیں ایسی ہیں جنہیں امام کو آہستہ آواز سے پڑھنا چاہئے۔ (١) اعوذ با اللہ (٢) بسم اللہ (٣) سبحانک اللہم (٤) آمین حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ بھی آمین آہستہ آواز سے کہتے تھے اس کے علاوہ یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ کلمات دعا کو آہستہ آواز سے پڑھنا ہی اولی اور صحیح ہے کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً ) 7۔ الاعراف 55) یعنی اپنے رب سے دعا گڑ گڑا کر اور چپکے سے کرو۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آمین بھی دعا ہی ہے لہٰذا آمین کو آہستہ سے کہنا اس آیت عمل پر کرنا ہے۔ نیز یہ کہ اس بات پر اتفاق ہے کہ آمین قرآن کا لفظ نہیں ہے اس لئے مناسب یہی ہے کہ اس کی آواز قرآن کے الفاظ کی آواز سے ہم آہنگ نہ ہو جس طرح کی مصحف (یعنی اوراق قرآن) میں لکھنا جائز نہیں ہے۔
Top