مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 794
وَعَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَۃَ صقَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم ےَقْرَءُ فِی الظُّہْرِ بِاللَّےْلِ اِذَا ےَغْشٰی وَفِی رِوَاےَۃٍ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی وَفِی الْعَصْرِ نَحْوَ ذَالِکَ وَفیِ الصُّبْحِ اَطْوَلَ مِنْ ذَالِکَ۔ (صحیح مسلم)
ظہر کی نماز کی قراءت
اور حضرت جابر ابن سمرہ ؓ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ ظہر کی نماز میں سورت واللیل اذا یغشی پڑھا کرتے تھے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ سورت سبح اسم ربک الاعلی پڑھا کرتے تھے اور عصر کی نماز میں بھی اسی قدر (کوئی آیت یا سورۃ) پڑھتے تھے اور صبح کی نماز میں اس سے لمبی قرأت کرتے تھے۔ (صحیح مسلم)

تشریح
جس طرح دیگر احادیث میں مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ فلاں نماز میں فلاں سورت پڑھتے تھے اور اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ وہ سورت پہلی رکعت میں پڑھتے تھے یا دوسری میں۔ یا ایک رکعت میں بغیر پہلی دوسری کے تعین کے پڑھتے تھے۔ اس طرح اس حدیث میں بھی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ آپ ﷺ ظہر کی نماز میں سورت واللیل اذا یغشی کس رکعت میں پڑھتے تھے آیا پہلی رکعت میں یا دوسری میں؟ اس سلسلہ میں دوہی احتمال ہوسکتے ہیں یا تو یہ کہ آپ ﷺ ایک ہی سورت کو دونوں رکعتوں میں پڑھتے تھے یا یہ کہ ایک سورت کا کچھ حصہ تو پہلی رکعت میں پڑھتے تھے اور کچھ حصہ دوسری رکعت میں (پہلے احتمال میں تکرار لازم آئے گا اور دوسرے میں تبعیض (یعنی کسی ایک سورت کا کچھ حصہ پہلی رکعت میں اور کچھ حصہ دوسری رکعت میں پڑھنا لازم آئے گا اور یہ دونوں یعنی تکرار و تبعیض غیر اولی ہیں اگرچہ جائز ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے تکرار و تبعیض ثابت نہیں ہے۔ چناچہ فقہاء نے لکھا ہے کہ ایک رکعت میں پوری سورت پڑھنا اگرچہ وہ چھوٹی ہو افضل ہے۔ بہ نسبت اس کے کہ ایک رکعت میں کسی سورت کا کچھ حصہ پڑھا جائے اگرچہ وہ سورت طویل ہو۔ ہاں اس مسئلے میں تراویح مثتثنیٰ ہے کیونکہ اس میں تو پورا قرآن سارے مہینہ میں ختم کرنا افضل ہے لہٰذا ان سے دونوں احتمالات اور ان میں پیدا شدہ اشکالات کو دیکھتے ہوئے کوئی ایسا تیسرا حتمال پیدا کیا جائے گا جو حدیث کی منشاء کے مطابق اور اس سے مناسب ہو اور وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ مذکورہ سورت کے علاوہ کوئی دوسری سورت بھی پڑھتے تھے خواہ پہلی رکعت میں پڑھتے ہوں یا دوسری میں۔
Top