مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 792
وَعَنْ اَبِیْ قَتَادَۃَص قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم ےَقْرَأُ فِی الظُّھْرِ فِیْ الْاُوْلَےَےْنِ بِاُمِّ الْکِتٰبِ وَسُوْرَتَےْنِ وَ فِیْ الرَّکْعَتَیْنِ الْاُخْرَےَےْنِ بِاُمِّ الْکِتَابِ وَےُسْمِعُنَا الْاٰےَۃَ اَحْےَانًا وَّےُطَوِّلُ فِی الرَّکْعَۃِ الْاُوْلٰی مَا لَا ےُطِےْلُ فِی الرَّکْعَۃِ الثَّانِےَۃِ وَھٰکَذَا فِی الْعَصْرِ وَھٰکَذَا فِی الصُّبْحِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
نماز میں قراءت کا طریقہ
اور حضرت ابوقتا دہ ؓ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ ظہر کی نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورت فاتحہ اور دو سورتیں (یعنی ہر رکعت میں سورت فاتحہ اور ایک سورۃ) پڑھتے تھے اور بعد کی دونوں رکعتوں میں صرف سورت فاتحہ پڑھتے تھے اور کبھی کبھی ہمیں (بھی) آیت سنا دیا کرتے تھے اور دوسری رکعت کی بہ نسبت پہلی رکعت کو زیادہ طویل کرتے تھے اسی طرح عصر اور فجر کی نماز میں بھی کرتے تھے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

تشریح
ظہر کی نماز میں یوں تو قرأت سری (یعنی آہستہ آواز سے) سے ہوتی ہے اور اسی طرح رسول اللہ ﷺ بھی پڑھتے تھے مگر معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ بسا اوقات ظہر کی نماز میں کوئی آیت یا سورت بآواز بھی پڑھ دیا کرتے تھے اور اس سے آپ ﷺ کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ لوگ جان لیں کہ سورت فاتحہ کے بعد کوئی سورت یا کوئی آیت بھی پڑھی جاسکتی ہے۔ یا لوگوں کو اس بات کا علم ہوجائے کہ آپ ﷺ فلاں سورت کی قرأت کر رہے ہیں۔ اتنی بات اور سمجھ لیجئے کہ یہاں ظہر کی تخصیص تقیدی ہیں ہے بلکہ اتفاقی ہے۔ یعنی آپ ﷺ ہر نماز میں ایسا ہی کرتے تھے۔ پہلی رکعت کو طویل کرنے کا مسئلہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی رکعت کو دوسری رکعتوں سے زیادہ طویل کرنا چاہئے چناچہ حضرت امام شافعی حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم کا مسلک یہی ہے کہ تمام نمازوں میں پہلی رکعت کو دوسری رکعت کی بہ نسبت زیادہ طویل کرنا چاہئے۔ حنفیہ میں سے حضرت امام محمد (رح) کا بھی مسلک یہی ہے، ان حضرات نے ظہر، عصر اور صبح کی نمازوں میں پہلی رکعت کو طویل کرنے کے مسئلے کو احادیث سے ثابت کیا ہے اور مغرب و عشاء کو ان تینوں پر قیاس کیا ہے۔ عبدالرزاق نے اس حدیث کے آخر میں معمر سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ ہمارا خیال ہے کہ رسول اللہ ﷺ پہلی رکعت کو اس لئے طویل کرتے تھے کہ لوگ پہلی رکعت پالیں، امام ابوداؤد اور ابن خزیمہ رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما نے بھی یہی لکھا ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ اور امام ابویوسف رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک پہلی رکعت کو طویل کرنا صرف فجر کی نماز کے ساتھ خاص ہے کیونکہ وہ وقت نیند و غفلت کا ہوتا ہے۔ ورنہ تو دونوں رکعتیں چونکہ استحقاق قرأت میں برابر ہیں۔ اس لئے مقدار قرأت میں بھی برابر ہونی چاہئیں چناچہ ایک حدیث میں اس کی وضاحت کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر رکعت میں تیس آیتوں کی مقدار قرأت کیا کرتے تھے جہاں تک اس حدیث کا تعلق ہے کہ جس سے پہلی رکعت کو طویل کرنے کا اثبات ہوتا ہے تو یہ اس بات پر محمول ہے کہ چونکہ پہلی رکعت میں دعا کے استفتاح (یعنی سبحانک اللہم اور اعوذ باللہ و بسم اللہ پڑھی جاتی ہے اس لئے پہلی رکعت طویل معلوم ہوتی تھی نیز یہ کہ طوالت تین آتیوں سے بھی کم کی مقدار میں ہوتی تھی۔ خلاصہ میں لکھا ہے کہ حضرت امام محمد (رح) کا مسلک احب یعنی اچھا ہے۔
Top