مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 781
وَعَنْ جُبَیْرِ بْنِ مُطْعِمٍ اَنَّہ، رَاٰی رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلمیُصَلِّی صَلَاۃً قَالَ اَﷲُ اَکْبَرُ کَبِیْرًا اَﷲُ اَکْبَرُ کَبِیْرًا اَﷲُ اَکْبَرُ کَبِیْرًا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا وَسُبْحَانَ اﷲِ بُکْرَۃَ وَّاصِیْلَا ثَلَاثًا اَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ مِنْ نَفْخِہٖ وَنَفَثِہٖ وَھَمَزِہٖ رَوَاہُ اَبُوْدَاؤدَ وَابْنُ مَاجَۃَ اِلَّا اَنَّہ، لَمْ یَذْکُرْوَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرًا وَذَکَرَ فِیْ اٰخِرِہٖ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ وَقَالَ عُمَرُ نَفْخُہُ الْکِبْرُ وَ نَفْثُہُ الشِّعْرُ وَ ھَمْزُہُ المُؤْتَۃُ۔
تکبیر تحریمہ کے بعد کی دعا
اور حضرت جبیر ابن مطعم ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آقائے نامدار ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے چناچہ آپ (تکبیر تحریمہ کے بعد کہتے تھے اَ اَکْبَرُ کَبِیْرًا اَ اَکْبَرُ کَبِیْرًا اللہ اَکْبَرُ کَبِیْرًا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا وَسُبْحَانَ ا بُکْرَۃَ وَّاصِیْلَا (یعنی اللہ بہت بڑا و برتر ہے اللہ بہت بڑا و برتر ہے، اللہ بہت بڑا و برتر ہے، اللہ کے واسطے بہت تعریف ہے۔ اللہ کے واسطے بہت تعریف ہے میں اور پاکی بیان کرتا ہوں اللہ کی صبح و شام، تین مرتبہ پہلے کلمات کی طرح وَسُبْحَانَ ا بُکْرَۃَ وَّاصِیْلَا کو بھی تین مرتبہ کہتے تھے اور پھر اس کے بعد یہ کہتے تھے) اَعُوْذُ بِا مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ مِنْ نَفْخِہ وَنَفَثِہ وَھَمَزِہ (یعنی شیطان کے تکبر، اس کے شعروں اور اس کے وسوسوں سے پناہ مانگتا ہوں، اس حدیث کو ابوداؤد اور سنن ابن ماجہ نے نقل کیا ہے البتہ ابن ماجہ نے وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ کَثِیْرَا ذکر نہیں کیا ہے اور آخر میں مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ ذکر کیا ہے۔ نیز حضرت عمر ؓ فرماتے تھے کہ شیطان کے نفخ سے تکبر، اس کے نفث سے شعر اور اس کے ہمز سے جنون مراد ہے۔

تشریح
نفح شیطان سے مراد تکبر و خود پسندی ہے جس میں شیطان آدمی کو اس طرح پھنساتا ہے کہ اس کو خود اس کی نظر میں اس حیثیت سے دکھاتا ہے کہ وہ آدمی اپنے آپ کو اچھا اور اعلیٰ سمجھ کر تکبر میں مبتلا ہوجاتا ہے اس طرح شیطان آدمی سے تکبر کا ارتکاب کراتا ہے۔ گویا نفح شیطان کا مطلب یہ ہوا کہ شیطان آدمی میں تکبر کی لہر پھونک دیتا ہے۔ نفث سے جس کے معنی دم کرنے یعنی پھونکنے کے ہیں سحر مراد لیا گیا ہے جو شیطان آدمی پر کرتا ہے یا آدمی سے کسی دوسرے پہ کراتا ہے یہ معنی ارشاد ربانی آیت ( وَمِنْ شَرِّالنَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ ) سورت الناس) کی مناسبت سے زیادہ اولیٰ ہے کیونکہ اس آیت کریمہ میں نَفّٰثٰتِ سے مراد سحر کرنے والی عورتیں ہیں۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ نفثت سے مراد غیر سنجیدہ اور برے مضمون کے اشعار ہیں جنہیں شیطان آدمی کے تخیل میں ڈالتا ہے اور پھر انہیں اس کی زبان سے صادر کراتا ہے جیسے برے منتر یا وہ غلط اشعار جن میں مسلمانوں کی ہجو اور کفر و فسق کے الفاظ ہوتے ہیں۔ ھمز سے مراد غیبت کرنا اور لعن و طعن کرنا ہے۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ ہمز شیطان سے اس کا وسوسہ مراد ہے جیسا کہ اس آیت (وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّيٰطِيْنِ ) 23۔ المومنون 67) میں ہمزات سے مراد شیطان کے وسو سے لئے گئے ہیں۔ بہر حال یہ معانی اسی وقت مراد لئے جائیں گے جب کہ یہ ثابت ہوجائے کہ حدیث میں حضرت عمر ؓ سے ان تینوں الفاظ کی جو توضیح نقل کی گئی ہے وہ حضرت عمر فاروق ؓ کا قول نہیں ہے بلکہ کسی راوی کا ہے۔ اگر یہ توضیح صحیح طور پر حضرت عمر فاروق ؓ سے ثابت ہو تو پھر وہی معنی مراد ہوں جو حضرت عمر فاروق ؓ سے منقول ہیں اور ان کے علاوہ دوسرے معنی مراد نہیں لئے جائیں گے۔
Top