مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 769
وَعَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلصَّلَاۃُ مَثْنٰی مَثْنٰی تَشَھُّدٌ فِیْ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ وَتَخَشُّعٌ وَّتَضَرُّعٌ وَّتَمَسْکُنٌّ ثُمَّ تُقْنِعُ یَدَیْکَ یَقُوْلُ قَدْاِرْفَعْھُمَا اِلٰی رَبِّکَ مُسْتَقْبِلًا بِبُطُوْنِھِمَا وَجْھَکَ وَتَقُوْلُ یَا رَبِّ یَا رَبِّ وَمَنْ لَّمْ یَفْعَلُ ذٰلِکَ فَھُوَ کَذَا وَ کَذَا وَفِیْ رِوَایَۃٍ فَھُوَ خِدَاجٌ۔ (رواہ الترمذی)
نماز کے بعد دعا مانگنی چاہئے
اور حضرت فضل ابن عباس ؓ راوی ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ نے فرمایا۔ (نفل) نماز دو رکعت ہے اور ہر دو رکعت میں التحیات ہے اور (نماز کی روح) خشوع، عاجزی اور اظہار غریبی ہے پھر (نماز پڑھنے کے بعد) اپنے پروردگار کی طرف دونوں ہاتھ اٹھاؤ، (حضرت فضل فرماتے ہیں کہ ثم تقنع یدیک سے رسول اللہ ﷺ کی مراد یہ تھی کہ نماز پڑھنے کے بعد تم) اپنے پروردگار کی طرف اپنے ہاتھوں کو اس طرح اٹھاؤ کہ ہاتھوں کی دونوں ہتھیلیاں منہ کی جانب ہوں (جو دعا کا طریقہ ہے) اور یہ کہو کہ اے میرے رب! اے میرے رب! اور جو آدمی ایسا نہ کرے (یعنی مذکورہ بالا طریقے پر عمل نہ کرے اور دعا نہ مانگے) تو اس کی نماز ایسی ہے، ویسی ہے (یعنی ناقص ہے) اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ اس کی نماز ناقص ہے۔ (جامع ترمذی )

تشریح
اس حدیث سے تین چیزوں کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے۔ یعنی پہلی چیز تو یہ ہے کہ نفل نماز دو رکعت پڑھی جائے خواہ دن ہو یا رات۔ یعنی ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیر دیا جائے چار رکعتوں کے بعد سلام نہ پھیرا جائے چناچہ حضرت امام شافعی (رح) نے اسی حدیث پر عمل کرتے ہوئے کہا ہے کہ نفل نماز دو رکعت کر کے ہی پڑھنا افضل ہے۔ حضرت امام اعظم (رح) فرماتے ہیں کہ چاہے رات ہو چا ہے دن، نفل نماز چار چار رکعتیں کر کے پڑھنا ہی افضل ہے، حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما کے نزدیک رات کو دو دو اور دن کو چار چار رکعتیں کر کے پڑھنا افضل ہے۔ حضرت امام شافعی (رح) کی دلیل تو یہی حدیث ہے۔ حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما نے تراویح پر قیاس کرتے ہوئے یہ حکم دیا ہے اور حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) اپنی دلیل کے طور پر فرماتے ہیں کہ یہ بات صحیح طور پر ثابت ہوچکی ہے کہ رسول اللہ ﷺ عشاء کے بعد چار رکعت پڑھتے تھے، نیز ظہر کی نماز میں آپ ﷺ سے چار رکعتیں پڑھنا ثابت ہے۔ پھر اس کے علاوہ ایک چیز یہ بھی ہے کہ چار چار رکعت پڑھنے میں تحریمہ کے اندر زیادہ دیر تک رہنے کی وجہ سے زیادہ مشقت و محنت برداشت کرنی پڑتی ہے اور یہ بتایا جا چکا ہے کہ جس عبادت میں مشقت زیادہ ہوتی ہے وہ افضل ہوتی ہے۔ امام ابوحنیفہ رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد ( الصلوۃ مثنی مثنی) کی تاویل یہ کرتے ہیں کہ اس ارشاد کی مراد یہ ہے کہ نفل نماز طاق نہیں ہے بلکہ اولیٰ درجہ دو رکعتیں ہیں۔ دوسری چیز یہ ہے کہ نماز کی روح اور نماز کی معراج خشوع و خصوع اور اظہار عاجزی ہے، بندہ نماز کے اندر جس قدر خشوع کرے گا خضوع سے کام لے گا اور پروردگار کے سامنے کھڑا ہو کر اس کی بڑائی و عظمت اور اپنی انتہائی بےچارگی و محتاجگی کا اظہار کرے گا نماز اسی قدر مقبولیت کے درجات کو پہنچے گی۔ خشوع کا مطلب یہ ہے کہ باطن میں بندہ اپنے عجز کا احساس کرے اپنے نفس کو عاجزی و انکساری کے راستے پر لگائے رہے گویا خشوع عجز باطنی کا نام ہے اور خضوع کا مطلب یہ ہے کہ بندہ ظاہری طور پر اپنے ہر عمل اور ہر زوایے سے اپنے عجز و انکساری کا اظہار کرے گو یا خضوع عجز ظاہری کا نام ہے۔ تیسری چیز یہ کہ نماز کے بعد دعا مانگنی چاہئے۔ یعنی جب بندہ اللہ کے دربار میں حاضری دے اور نماز پڑھ کر اپنی عبودیت و فرما نبرداری کا اظہار کر دے تو اس کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ نماز کے بعد اللہ کی درگاہ میں اپنے ہاتھوں کو اٹھا دے اور اپنی محتاجگی ولا چارگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی دینی دنیوی بھلائی میں اللہ کی مدد و نصرت کا طلب گار ہو۔
Top