مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 757
عَنِ ابْنِ عُمَرَ ص اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ ےَرْفَعُ ےَدَےْہِ حَذْوَ مَنْکِبَےْہِ اِذَا افْتَتَحَ الصَّلٰوۃَ وَاِذَا کَبَّرَ لِلرُّکُوْعِ وَاِذَا رَفَعَ رَاْسَہُ مِنَ الرُّکُوْعِ رَفَعَھُمَا کَذَالِکَ وَقَالَ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہُ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ وَکَانَ لَا ےَفْعَلُ ذَالِکَ فِی السُّجُوْدِ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
رفع بدین
اور حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ آقائے نامدار ﷺ جب نماز شروع کرتے تو دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور جب رکوع کے لئے تکبیر کہتے نیز جب رکوع سے سرا ٹھاتے تو تب بھی اسی طرح دونوں ہاتھ (کندھوں تک) اٹھاتے اور (رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے) کہتے سمع اللہ لمن حمدہ۔ ربنالک الحمد (ا اللہ نے اس آدمی کو سن لیا (یعنی اس کی تعریف قبول کرلی) جس نے اس کی حمد بیان کی۔ اے ہمارے پروردگار! تعریف تو تیرے ہی لئے ہے) اور رسول اللہ ﷺ سجدوں میں ایسا نہیں کرتے تھے۔ (صحیح البخاری )

تشریح
رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کا مطلب یہ کہ اے پروردگار! دنیا کی تمام تعریفیں تیرے ہی لئے ہیں یہاں تک کہ اگر کوئی کسی آدمی کی تعریف کرتا ہے تو وہ درحقیقت تیری ہی تعریف کرتا ہے کیونکہ سب کو پیدا کرنے والا تو ہی تو ہے اس لئے مصنوع کی تعریف دراصل صانع ہی کی تعریف ہوتی ہے۔ حدیث کے اس جزو سے معلوم ہوا کہ ہر نماز پڑھنے والے کو سمع اللہ لم حمدہ اور رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ دونوں کلمات کہنے چاہئیں۔ مگر حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی تنہا نماز پڑھ رہا ہو تو اسے یہ دونوں کلمات کہنے چاہئیں مگر جماعت کی صورت میں امام صرف سمع اللہ لم حمدہ کہے اور مقتدی ربنالک الحمد کہیں۔ حضرت امام ابویوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں کہ امام کو دونوں کلمات کہنے چاہئیں اسی قول کو امام طحاوی (رح) نے بھی اختیار کیا ہے۔ بلکہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ (رح) سے بھی ایک روایت اسی قول کی تائید میں منقول ہے مقتدی کے بارے میں ان کی رائے بھی یہی ہے کہ وہ صرف رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہے۔ وکان لا یفعل ذلک فی السجود (یعنی آپ ﷺ سجدوں میں ایسا نہیں کرتے تھے) کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح تکبیر تحریمہ کے بعد آپ ﷺ رکوع میں جانے سے پہلے اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت رفع یدین کرتے تھے اس طرح جب سجدے میں جاتے یا سجدے سے سر اٹھاتے تو رفع یدین نہیں کرتے تھے چناچہ حضرات شوافع کا مختار مسلک یہی ہے کہ ان اوقات میں رفع یدین نہیں کرنا چاہئے۔ ان حضرات کے نزدیک رفع یدین کی جو صورت ہے وہ یہی ہے کہ رفع یدین صرف تکبیر تحریمہ، رکوع میں جانے کے وقت اور رکوع سے سر اٹھانے کے وقت کرنا چاہئے۔ ان تینوں موقعوں کے علاوہ اور کسی موقعہ پر رفع یدین کو یہ حضرات صحیح نہیں مانتے۔
Top